اسلام آباد،پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنل ایکٹ کے خلاف درخواست،صحافی کی تعریف اور صحافیوں پر ضابطہ فوجداری سمیت دیگر قوانین کے اطلاق کا معاملہ ،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے احکامات جاری کر دئیے ۔
عدالت نے ریمارکس دیے ہیں کہ جرنلسٹس پروٹیکشن بل کے تحت جنرنلسٹس کی تعریف میں فوٹو گرافر کیمرہ مین ودیگر بھی صحافی کی تعریف میں شامل ہیں،بادی النظر میں سیکشن 6 کی سب سیکشن 3 آئین میں دی گئی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے،وزارت انسانی حقوق عدالت کو مطمئن کرے گی کہ آرٹیکل 19 اور آرٹیکل 19 اے کے متصادم نہیں، جو چیز غیر ضروری ہے اس ۔کو آپ ہٹا بھی سکتے ہیں ضروری نہیں کورٹ اس میں مداخلت کرے۔
درخواست گزار اور اٹارنی جنرل کے ساتھ بیٹھ کر آرٹیکل 19 اور 19 اے کے تناظر میں اس کو دیکھیں، بادی النظر میں درخواست گزار کے جرنلسٹس کی تعریف سے متعلق خدشات درست نہیں۔
عدالت پر ظاہر ہوا ہے کہ فوٹو جرنلسٹس بھی جرنلسٹس کی تعریف میں آتے ہیں۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ قانون اس بارے میں مکمل طور پر واضع ہے کہ کون صحافی ہے ،کیمرہ مین اور فوٹو گرافر کا کام رپورٹر سے بھی اہم ہے،ایک تصویر اور وڈیو سے زیادہ موثر کوئی تقریر نہیں ہو سکتی،آف رائٹ ٹو انفارمیشن اور فریڈم آف ایکسپریشن صرف میڈیا کا مسئلہ نہیں،جب تک تنقید نہیں ہو گی احتساب نہیں ہو سکتا۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پبلک آفس ہولڈر کا بہترین احتساب معلومات تک رسائی اور تنقید ہے،جس طرح عدلیہ صرف سپریم جوڈیشل کونسل کو جوابدہ ہے اسی طرح خبر دینے والے کو بھی کام کے دوران پولیس کا خوف نہیں ہونا چاہیے،قوانین کے غلط استعمال کے حوالے سے پی ایف یو جے کا شکوہ بے جا نہیں ہے،اس عدالت نے حکم دے رکھا ہے کہ ریاست اپنے عمل سے ثابت کرے کہ آزادی اظہار رائے پر کوئی قدغن نہیں،جنرنلسٹس پروٹیکشن بل کی شق چھ میں لکھے الفاظ سے صحافیوں کے خلاف مقدمے کا لائسنس مل جائے گا،پھر تو صحافی کوئی خبر نہیں دے سکیں گے،پاکستان میں مقدمہ درج ہونے سے بھی بہت کچھ ہو جاتا ہے،اس میں شک نہیں کہ بل سے صحافیوں کو تحفظ حاصل ہو گا لیکن متعلقہ سیکشن کی لینگویج میں شدید ابہام ہے،شق نمبر چھ میں صحافیوں کو خبر دے کر پولیس کارروائی کی دھمکی محسوس ہو رہی ہے۔
بادی النظر میں فوٹو گرافر، کیمرہ مین، پروڈیوسر، ایڈیٹرز صحافی کی تعریف میں شامل ہیں۔عدالتی حکم کے مطابق عدالت کو یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ بل میں ترامیم لائی جا رہی ہیں،انسانی حقوق کے حکام نے یقین دہانی کروائی ہے کہ آئین کی شق انیس اور انیس اے پر مکمل عمل کیا جائے گا،عدالت کو بادی النظر میں بل کی شق چھ بنیادی حقوق کے خلاف نظر آ رہی ہے،عدالت نے وزارت انسانی حقوق سے ایک ماہ میں کمنٹس طلب کر لیے۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کے کام کو سراہتے ہیں،صحافیوں پر قابل دست اندازی پولیس قوانین کا اطلاق کیسے ہو سکتا ہے؟؟؟ پہلے ہی پیکا ایکٹ آزادی اظہار رائے کے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔
درخواست میں بنیادی خدشہ Good faith عدالت نے ریمارکس دیے کہ سیکشن 6 کی سب سیکشن 3 میں صحافیوں کے لیے ایک تھریٹ کی نشاندہی کی گئی، عدالت کو بتایا گیا ہے کہ پرائیویٹ ممبر بل میں کچھ ترامیم تجویز کی گئیں ہیں، وزارت انسانی حقوق کے نمائندہ نے کہا کہ درخواست گزار کے خدشات کو دیکھ کر اس کا حل نکالے گی، وزارت انسانی حقوق کے نمائندہ نے کہا اگر ضرورت پڑی تو پارلیمنٹ میں ترمیم تجویز کی جائے گی، عدالت کی وزارت اطلاعات اور وزارت انسانی حقوق نوٹس کو جواب جمع کرانے کی ہدایت کردی ۔کیس کی مزید سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کردی گئی ۔