
بیجنگ :’’ماضی میں پرندے ڈھونڈنے کے لیے آپ کو دور دور جانا پڑتا تھا، لیکن اب چین میں ماحول بہتر سے بہتر ہوتا جا رہا ہے اور آپ شہر کے پارکس میں بھی پرندوں کی تصاویر کھینچ سکتے ہیں۔ ماحول کی بہتری آنکھوں کے سامنے ہے ۔”پاکستان سے تعلق رکھنے والے خالد شریف نے چینی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے حالیہ برسوں میں چین کے ماحول میں آنے والی تبدیلیوں کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار مذکورہ بالا الفاظ میں کیا ۔خالد چین میں کئی سالوں سے مقیم ہیں ۔ 2015 میں، انہیں پرندوں کی تصویر کشی کا شوق ہوا۔
انہوں نے چین کے متعدد علاقوں کا دورہ کیا ہے اور لاکھوں پرندوں کی تصاویر کھینچی ہیں، جنہوں نے نہ صرف چین کی ماحولیاتی خوبصورتی کو محفوظ کیا ہے بلکہ چین کی ماحولیاتی تبدیلیوں کے بھی عینی شاہد ہیں۔ پرندوں کی اقسام زیادہ ہو رہی ہیں اور ہوا بھی خوشبودار ہونے لگی ہے. چھنگ حوا یونیورسٹی کی ایک تحقیقی ٹیم نے دریافت کیا کہ 10 سال پہلے کے مقابلے میں، اب ہوا میں لیمونین جیسے مرکبات زیادہ ہوتے ہیں ، پھولوں اور درختوں کی خوشبو نے بدبودار عناصر کی جگہ لے لی ہے۔ پانی بھی صاف ہو رہا ہے۔ "دریائے زرد کا گردہ” کہلانے والی وولیانگ سوہائی شمالی چین کی اہم ماحولیاتی ڈھال ہے۔ تاہم، اس جھیل کا ماحولیاتی نظام ایک بار تباہی کے دہانے پر تھا۔ دس سال سے زیادہ کے جامع انتظامات کے بعد، محققین نے حال ہی میں یہاں پانی کا نمونہ لیا اور پایا کہ ہائی پاور مائکرواسکوپی کے تحت، پانی میں موجود حیاتیات واضح طور پر نظر آتے ہیں،
اور پانی کا معیار اور اس کا ماحولیاتی نظام مسلسل بہتر ہو رہا ہے. آسمان میں اڑتے ہوئے پرندوں سے لے کر ہماری زندگی کے لیے لازمی ہوا ،اور پھر جھیل میں پانی کے ایک قطرے تک، ماحولیاتی تبدیلیاں نہ صرف لوگوں کا ذاتی احساس ہے، بلکہ اسے اعداد و شمار سے بھی ثابت کیا جا سکتا ہے: اپریل 2025 میں جاری ہونے والی "بیجنگ زمینی جنگلی حیات کی فہرست” کے مطابق، بیجنگ میں جنگلی پرندوں کی تعداد ریکارڈ 527 تک پہنچ گئی ہے۔ پرندوں کے تنوع کے لحاظ سے جی 20 ممالک کے دارالحکومتوں میں بیجنگ دوسرے نمبر پر ہے۔ 2024 ء میں پریفیکچر کی سطح اور اس سے اوپر کے شہروں میں پی ایم 2.5 کا اوسط ارتکاز 29.3 مائیکروگرام فی مکعب میٹر تھا ، جس سے چین دنیا میں ہوا کے معیار میں تیز ترین بہتری والا ملک بن گیا۔ دریائے یانگسی کے مرکزی دھارے کے پانی کا معیار لگاتار پانچ سالوں ، اور دریائے زرد کے مرکزی دھارے کا پانی لگاتار تین سالوں سے کلاس 2 پر مستحکم رہا ہے ۔ ساحلی پانی میں بہترین پانی کے معیار کا تناسب 83.7 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ مذکورہ بالا ماحولیاتی تبدیلیاں چین میں بیس سال سے جاری سبز تبدیلی کا ثمر ہیں۔ سنہ 2005 میں زے جیانگ صوبائی پارٹی کمیٹی کے اُس وقت کے سیکریٹری شی جن پھنگ نے صوبے میں ایک گاؤں کا دورہ کرتے وقت یہ تصور پیش کیا کہ ” سبز پہاڑ اورصاف پانی انمول اثاثے ہیں”، جس نے ماحولیاتی تحفظ اور معاشی ترقی کے جدلیاتی اتحاد کی گہرائی سے وضاحت کی۔چین میں گذشتہ بیس سالوں میں ماحولیاتی تہذیب کی تعمیر میں نظریہ اور عمل دونوں حوالوں سے نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور قابل ذکر کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔
گزشتہ تقریباً 20 سالوں میں ، چین نے دنیا میں نئے سبز علاقے کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ ڈالا ہے ، شجرکاری کا رقبہ دنیا میں سب سے بڑا ہے ، صحرائی رقبے میں کمی لائی ہے اور نیشنل پارکس کی تعمیر میں بھی تاریخی نتائج حاصل کیے ہیں، وغیرہ ۔توانائی کے ڈھانچے کی تبدیلی اور اپ گریڈنگ میں زیادہ گہری تبدیلیاں ظاہر ہوتی ہیں۔2012 کے بعد سے، چین نے اوسطاً 3.3 فیصد سالانہ توانائی کی کھپت کی شرح کے ساتھ اوسطاً 6.1 فیصد سے زائد معاشی ترقی کو برقرار رکھا، اور دنیا کا سب سے بڑا اور تیزی سے ترقی کرنے والا قابل تجدید توانائی کا نظام تعمیر کیا۔2024 میں، چین کے صاف توانائی میں سرمایہ کاری کا حجم دنیا میں کل سرمایہ کاری کا ایک تہائی تھا۔ فوٹو وولٹک اور ونڈ پاور کی تنصیب شدہ صلاحیت گزشتہ 10 سالوں سے مسلسل دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔
گزشتہ دس سالوں میں، عالمی غیر فوسل توانائی کی کھپت میں اضافے میں چین کا حصہ 45 فیصد سے زیادہ رہا۔ توانائی کے تکنیکی نظام کی جدت نے عالمی توانائی کے ڈھانچے میں گہری انقلابی تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے حال ہی میں زور دے کر کہا کہ توانائی کی منتقلی نہ صرف موسمیاتی بحران کا ناگزیر حل ہے، بلکہ یہ توانائی کی سلامتی، معاشی ترقی اور سماجی انصاف سے بھی گہرا تعلق رکھتی ہے۔ فی الوقت، صاف توانائی نے 35 ملین سے زائد روزگار پیدا کیے ہیں اور متعدد ممالک میں معاشی ترقی کو فروغ دیا ہے۔لہٰذا، جب ہم ماحولیاتی تحفظ کی بات کرتے ہیں، تو ہم صرف فطرت ہی نہیں، بلکہ انسانی بقاء، مفادات اور صحت کی ضمانت کو محفوظ بنا رہے ہیں۔چین کے صدر شی جن پھنگ نے بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ ‘اگر ماحول اچھا ہو تو لوگوں کو خوشی کا حقیقی احساس ہو گا”۔ عوام کی خواہش ہی حکومت کی ترجیح ہے ۔یہی چین میں ماحولیاتی تہذیب کی تعمیر کو فروغ دینے کی محرک قوت بھی ہے۔ پہاڑوں سے صرف گزربسر کے لیے فائدہ اٹھانے کے رویے سے لے کر پہاڑوں اور جنگلات کی حفاظت کرنے تک، شفاف پانی ، سبز پہاڑ، برفانی میدان ، صحرائی اور بنجر زمینیں سب سنہری پہاڑ بن چکے ہیں۔ شفاف پانی اور سرسبز پہاڑوں سے ماحولیاتی سیاحت کی آمدنی حاصل ہوئی ہے، برفانی میدانوں سے سرمائی معیشت کی ترقی ہوئی ہے، اور صحرائے گوبی میں اگائی جانے والی نقدآور فصلیں سونا بن گئی ہیں۔
سبز زراعت، ماحولیاتی سیاحت اور صاف توانائی جیسی سبز صنعتیں معاشی ترقی کے "نئے انجن” بن چکی ہیں، جہاں معاشی ترقی اور ماحولیاتی تحفظ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔عالمی سطح پر،”بیلٹ اینڈ روڈ ” گرین ڈیولپمنٹ فنڈ سے لے کر” کھون منگ بائیو ڈائیورسٹی فنڈ تک” ، اور ریگستان کے انتظامات سے لے کر گرین انرجی سمیت دیگر تعاون کے منصوبوں تک ، چین کے اقدامات عالمی ماحولیاتی انتظام کی ساخت کو نئی شکل دے رہے ہیں۔ یہ کوششیں پائیدار ترقی کے زیادہ سبز ماڈل تشکیل دے کر عالمی ماحولیاتی گورننس پیٹرن کو نئی شکل دے رہی ہیں، جس کا مقصد ایک خوبصورت کرہ ارض کی مشترکہ تعمیر ہے۔