ٹیکنالوجی

زوم نے ’ورک فرام ہوم‘ ختم کرکے ’’بیک ٹو آفس‘‘ پالیسی نافذ کردی

واشنگٹن (آئی پی ایس) سب کو دفتر کا کام گھر سے کرنے کی عادت ڈلوانے والی ایپ ’’زوم‘‘ نے اپنے ملازمین کو ورک فرام ہوم سے روک دیا۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق وبائی مرض کورونا کے پھوٹنے کے بعد سے دنیا بھر ورک فرام ہوم کا تصور پیش کرکے اپنی مقبولیت کے جھنڈے گاڑ دینے والی ایپ زوم نے اب خود اپنے ملازمین کا ورک فرام ہوم ختم کرکے انھیں کام کیلئے دفتر بلالیا۔

خیال رہے کہ اس سے قبل زوم کا کہنا تھا کہ ان کا عملہ غیر معینہ مدت تک ورک فرام ہوم کام کرے گا تاہم اب نئی پالیسی کا اعلان کیا ہے جو اگست اور ستمبر میں بتدریج نافذ کردی جائے گی۔

ویڈیو کمیونیکیشن کمپنی زوم نے اپنی پالیسی میں تبدیلی کرتے ہوئے دفتر کے 50 میل (80 کلومیٹر) کے اندر رہنے والے ملازمین کیلئے ہفتے میں کم از کم دو بار دفتر میں حاضری اور کام کرنا لازم قرار دیدیا۔

زوم نے اپنی نئی پالیسی میں مؤقف اختیار کیا کہ ٹیکنالوجی کی دنیا میں نئی نئی اور حیران کن ایجادات جاری رکھنے اور اپنے عالمی صارفین کی بہتر سے بہتر انداز میں مدد کرنے کیلئے ملازمین کو دفتر سے کام کرنے کا کہا گیا ہے۔

بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہم اپنے ملازمین اور منتشر ٹیموں کو مربوط رکھنے اور مؤثر طریقے سے کام کرنے کیلئے پورے زوم پلیٹ فارم کا فائدہ اٹھاتے رہیں گے۔

وال سٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ستمبر 2022 میں زوم کے صرف ایک فیصد ملازمین باقاعدہ طور پر دفتر میں رہتے ہوئے اپنا کام کیا کرتے تھے جب کہ 75 فیصد ورک فرام ہوم اور بقیہ کیلئےہائبرڈ انتظامات تھے۔

تاہم مارکیٹ میں آنے والے سخت حریفوں کا مقابلہ کرنے اور مائیکروسافٹ جیسے ادارے کو اپنی ویڈیو پیشکشوں کو اپ گریڈ کرنے کیلئے زوم پر کام کا دباؤ بہت بڑھ گیا ہے۔

گو کہ ابھی صرف ہفتے میں دو دن ملازمین کو دفتر آنے کا کہا گیا ہے اور وہ بھی صرف ان ملازمین کو جو دفتر کے قریبی علاقے میں رہائش پذیر ہیں لیکن یہ اس بات کا اشارہ بھی ہے کہ مستقبل میں دفتر نہ آنے اور مرضی کے اوقات کار میں نرمی کو آہستہ آہستہ ختم کیا جائے گا۔

اسٹینفورڈ یونیورسٹی اور دیگر کے محققین کے سروے کے مطابق گزشتہ ماہ تک امریکا میں تقریباً 12 فیصد ملازمین زوم کے صدر دفتر سے کافی فاصلے پر کام رہے تھے جبکہ دیگر 29 فیصد کے پاس ہائبرڈ انتظام تھا۔

یاد رہے کہ کرونا سے پہلے امریکا میں گھر سے کام کرنے والے صرف 5 فیصد تھے لیکن اب یہ تعداد کہیں زیادہ ہے۔

Back to top button

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker