کالم /بلاگز

اللہ کے نبی کی صحابہ سے دل لگی اور مزاح

اللہ کے نبی کی صحابہ سے دل لگی اور مزاح
تحریر ۔۔اظہار احمد
آپ جب بھی کبھی ہنسی مزاح کر رہے ہوں یا لکھ رہے ہوں تو ایک بات کا ضرور دھیان رکھا کریں کہ آیا میں جو مزاح کر رہاہوں یا لکھ رہا ہوں کیا یہ جھوٹ تو نہیں؟ کیونکہ سچے مزاح کی شریعت میں اجازت ہے، اللہ کے نبی خود بھی دل لگی اور مزاح فرمایا کرتے تھے ، کء روایات ہیں اس بارے میں۔ جیسے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کہ ایک دفعہ ایک شخص نے آقا علیہ الصلا والسلام سے سواری کے لیے اونٹ مانگا ، کہ کوء سواری کا جانور مجھے عطا فرما دیجیے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ایک اونٹنی کا بچہ آپ کو دے دیں گے،تو سائل نے کہا حضور میں بچے کا کیا کرونگا؟(مجھے تو سواری کے لیے چاہیے )اللہ کے نبی نے فرمایا ہر اونٹ کسی اونٹنی کا بچہ ہوتا ہے سائل کا گمان یہ تھا کہ اونٹ کا بچہ تو ناقابل سواری ہوگا۔ شمائل ترمذی میں امام ترمذی رحمہ اللہ نے ایک واقعہ ذکر کیا ہے حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کے حوالہ سے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک بوڑھی عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ میرے لیے دعا فرمائیں کہ میں جنت میں داخل ہو جاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے فلان شخص کی والدہ! جنت میں کوئی بڑھیا داخل نہیں ہو گی۔ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :کہ وہ بڑھیا روتی ہوئی واپس چلی گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے خبر کر دو کہ کوئی عورت بڑھاپے کی حالت میں نہیں جائے گی (بلکہ نواجوان دوشیزہ بن کر جائے گی)جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: انا انشاناہن انشا فجعلناہن ابارا عربا اتراباکہ ہم نے ان عورتوں کو اس خاص انداز پر پیدا کیا کہ وہ کنواریاں، دل پسند اور ہم عمر ہیں۔ ایک دفعہ حضرت انس کو فرمایا دلی لگی کے طور پہ یا ذالاذنین اے دو کانوں والے! کان تو سب کے ہی دو ہوتے ہیں لیکن علما نے لکھا ہے کہ حضرت انس بہت دور سے بات سن لیتے تھے اس وجہ سے فرمایا اے دو کانوں والے۔ اور ظاہر بات ہے اللہ کے نبی جیسا کوء خوش مزاج تھا نہ کوء ہوسکتا ہے۔ بہرحال ، یہ ڈفنیشن میں نے کہیں پڑھی تھی۔ کہ مذاق اس کو کہتے ہیں جس میں جھوٹ شامل ہو اور کسی کی عزت نفس مجروح ہو رہی ہو۔ مزاح اسے کہتے ہیں جس میں کوء خاص نکتہ پہ بات کی جائے اور سمجھنے والا جب اس کو سمجھے تو مسکرائے بغیر نہ رہ سکے اور اس میں جھوٹ شامل نہ ہو۔ اللہ سبحانہ نے مزاق یا تمسخر سے منع فرمایا ہے جیسے لا یسخر قوم من قوم۔کوء گروہ دوسرے گروہ کا مذاق نہ اڑائے ۔ ہم سب نے اکثر دیکھا ہوگا لوگ دوسروں کو ہنسانے کی خاطر جھوٹے لطیفے بیان کرکیاورلوگوں کا تمسخر اڑھاتے ہیں ،اس چیزسے اپنے آپ کو ہمیشہ کے لیے بچانا چاہیے ! کیونکہ جھوٹ تو بہرحال جھوٹ ہوتا ہے خواہ مزاق کے لیے بولیں یا دھوکہ دیہی کے لیے۔ ایک حدیث میں ایسے شخص کے بارے میں سخت وعید وارد ہوئی ہے جو جھوٹ بول کر لوگوں کو ہنسائے۔ ویل لِلذِی یحدِث بِالحدِیثِ لِیضحِ بِہِ القوم فیذِب، ویل لہ ویل لہ۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تباہی وبربادی ہے اس شخص کے لیے جو ایسی بات کہتا ہے کہ لوگ سن کر ہنسیں حالانکہ وہ بات جھوٹی ہوتی ہے، تو ایسے شخص کے لیے تباہی ہی تباہی ہے۔ تو ہمیں بہت خیال کرنا چاہیے ،آج کل سوشل میڈیا ان باتوں سے بھرا پڑا ہے،بعض لوگوں نے ٹی وی پہ بیٹھ کرجھوٹے لطیفے سنانے کو ہی اپنا پیشہ بنالیاہے،اور اس میں غلوکی حد تک جھوٹ ہوتا ہییا لطیفوں کے ذریعے کسی کو ایذا پہنچا رہے ہوتے ہیں۔ اللہ بچائے ہم سبکو۔(امین) مزاح یا ایسے لطیفے جو حقیقت اورسچائی پہ مبنی ہوں، شریعت اس سے بلکل منع نہیں فرماتی۔ کبھی کبھار فیملی میں مل بیٹھ کرہنسی مزاح کر لینا چاہیے جو سچائی پہ مبنی ہو۔ ہمیشہ ماتھے پہ بارہ بجا کر نہیں بیٹھنا چاہیے۔ کہ ننانوے قتل کر چکا تھا ایک بھاگ گیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker