کالم /بلاگز

خاندانی نظام اور حدود و قیود

تحریر: حمیرا الیاس
@humma_g
ہم جیسے جیسے معاشرے میں بڑھتے چلے جا رہے، دوسروں کی زندگیوں میں دخل اندازی کا رواج زور پکڑتا چلا جا رہا۔ اس دخل درمعقولات سے حکومتی و نجی ہر جگہ پر کاموں میں رخنے پڑرہے اور ایسا دکھائی دیتا کہ تمام نظام بیٹھنے والا ہے۔
ہمارا معاشرتی نظام دراصل اتنی شدت سے مختلف تہذیبوں سے متاثر ہے کہ اس میں خاندانی نظام کی اصل روح غائب ہو گئی ہے۔ دراصل ہمارے خاندانی نظام۔کی خوبصورتی یہ تھی کہ سب لوگ اپنی حدود میں رہتے اور جھگڑوں کی صورت میں گھر کے ایک بڑے کی طرف سے منصفانہ فیصلے کو تسلیم کیا جاتا اور اکائی قائم رہتی، پھر آہستہ آہستہ خاندانی سیاست نے سر ابھارنا شروع کیا تو ہرکوئی اپنی منوانے کی خواہش کرنے لگا اور دوسروں کی غلطیوں کو اجاگر کرنے پر زیادہ زور دیا جانے لگا اور یوں وحدت سے تقسیم تک کا سفر شروع ہوا۔ اور یوں ہم تقسیم در تقسیم ہوتے اتنے کمزور ہوتے گئے کہ آسانی سے کسی کا بھی کاری وار ہمیں مزید ختم کرنے لگا۔
اس سب میں اگر ہم آیک اہم کڑی اپنے ذہن میں رکھیں تو شاید ہم اپنے خاندانی ڈھانچے کے بکھرتے شیرازے کو سمیٹ سکتے۔ آپس کے رشتوں میں اگر صرف رشتوں کی خاص حدود کا خیال رکھ لیں تو بہت سے معاشرتی مسائل سر اٹھانے سے پہلے ہی ختم کئے جاسکتے ہیں۔ اب ہم دیکھتے ہیں حدود یا حد بندی سے مراد کیا ہے؟
معاشرتی حد بندی معاشرے میں رہتے ہوئے وہ قواعد ہیں جن پر معاشرہ میں بیشتر افراد متفق ہوں اور وہ زندگی گزارنے کو خوش کن بنا دیں۔
اکثر اوقات لوگ آپکی حدود عبور نہیں کررہے ہوتے، بلکہ ان کو یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ مختلف لوگوں سے میل جول کے لئے ایسی کوئی حدود کا وجود بھی ہےیا یہ کہ آپ کی مقرر کردہ حدود کیاہیں۔ تو اسوسرت میں سب سے اہم ہوتا کہ نہ صرف آپ اپنی حدود کے بارے بہت واضح موقف رکھتے ہوں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ آپ بہترین اندازمیں دوسروں کو اس موقف کی وضاحت بھی کرسکتے ہوں۔ معاشرے میں زندگی آسان بنانے کے لئے نفسیات دان پانچ طرح کی حدود بتاتے ہیں۔
جسمانی حدود
اس میں آپ کی شخصی حدود کا تعین کیا جاتا، آپ کیا کھانا ہینا چاہتے، کس حد تک دوسرے شخص سے جسمانی تعلق کی اجازت دینا چاہتے یا دوسروں کو اپنی زندگی میں کتنی گنجائش دینا چاہتے۔ کوئی آپ کو اپنی زندگی میں کتنی جگہ دیتا اسے قبول کیجئے تو زندگی کے بہت سے معاملات خودکار طور ایک سسٹم کے تابع ہوجاتے۔ اور ہمیں اللہ رب العزت کی طرف سے بھی دوسروں کی ذاتی زندگی کا خیال رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔
جذباتی حدود
جذباتی وابستگیاں اور تعلق کی حدود بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہماری اکثر رنجشوں کی وجہ صرف یہی ہوتی کہ ہم توقع کرتے کہ دوسرا شخص ہمیں اپنے تمام جذبات میں مکمل طور وابستہ کرلے۔ جبکہ درحقیقت ہر انسان کو یہ اختیار ہے کہ وہ دوسرے کے ساتھ کچھ حدود تک فاصلہ رکھے یا سب کچھ بتا دے۔
حدود اوقات
مختلف کاموں کے لئے کوئی انسان کس وقت میں موزوں رہتا اور کب اسے وہ کام کرنا پسند نہیں اوراس میں بالکل بھی افسردہ ہونے کی بات نہیں ہونا چاہئے اگر آپ کو کوئی کہیں جانے سے احسن طریقے سے منع کرے یا کوئی مجبوری بتا دے تواسے سمجھنا چاہئے بہت بار کم دوسرے کو اس کے اوقات کارمیں تبدیلی کے لئے بہت بضد ہوجاتے اور وہ ہمارے مطابق ناڈھال پائے توہر جگہ تنقید کانشانہ بھی بناتے۔ یہ طرزعمل رشتوں میں رخنوں کا باعث بنتا ہے۔
فکری حدود
اس میں ہماری سوچ،اندازفکر اور مختلف نئے آئیڈیاز کی تحریک شامل ہے ہر انسان اپنی سوچ کے لئے آزاد ہے اور اسی طرح دوسروں کو بھی ان کے طرز فکر پر چلنے کی آزادی بھی دینا چاہئے۔ فکری حدود کے لئے دوسروں کی عزت کرںا، گفت وشنید میں دوسرے کے نکتہ نظر کو سننا اوران کی رائے کااحترام کرنا اہمیت رکھتا ہے۔
مادی حدود
اس میں وہ تمام اشیا جاتی جو ہماری ملکیت میں ہوں،جیسا کہ گھر، گاڑی، جائیداد یا کوئی بھی آپ کی ذاتی استعمال کی چیزیں ۔ اب یہ آپکا بنیادی حق ہے کہ آپ اپنی کوئی چیز کسی کے ساتھ شئیر کرنا چاہتے یا نہیں، اور کوئی دوسرا نہ شئیر کرنا چاہے تو اس پر غصہ کرنا یا گلہ کرنا بھی درست طرز عمل نا ہے۔
اگر ہم صرف دوسروں کی زندگی میں دخل اندازی بند کردیں اور وہ جیسی زندگی گزارنا چاہتے اس کا حق انہیں دے دیں تو شاید معاشرے میں بڑھتی بے چینی کا حل ڈھونڈنے کیلئے نفسیاتی ڈاکٹر کا سہارا لینے کی ضرورت نہ رہے اور ہم ایک ایسے خوبصورت معاشرے کے باسی بن جائیں جہاں قوانین کے نفاذ کے لئے کسی زور زبردستی کی بھی ضرورت نہ رہے گی کیونکہ ہر ایک دوسرے کی جذباتی،مادی ، جسمانی اور اوقات کی حدود کا احترام کررہا ہوگا۔ آئیے اک بہتر معاشرے کی ابتدا اپنے طرز عمل میں تھوڑی سی تبدیلی سے کرکے کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker