
اسلام آباد، پاکستان پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما سینیٹر رضا ربانی نے کہا ہے کہ ہرشہری کا حق ہے کہ وہ جان سکے کہ حکومت کی پالیسی کیا ہے،ریاست پارلیمان کے سامنے جوابدہ ہے۔ سینیٹ کے اجلاس میں سینیٹر رضا ربانی نے تحریک التوا پراظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ آمریت کے دورمیں وہ تمام لوگ جو متبادل سوچ کو جنم دیتے تھے ریاستی پالیسی کے تحت اس سوچ کو ختم کیا گیا۔انہوںنے کہا کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا حصہ ہے اور پاکستان کی ریاست کا مطلب ملٹری اور سول بیوروکریسی ہے۔ اس میں ایوان میں اس طرف اوراس طرف بیٹھے ہوئے لوگ شامل نہیں ہیں۔رضا ربانی نے کہا کہ 1947 سے آج تک ریاست نے انتہا پسند اورجہادی عناصر کو سپورٹ کیا، میرا کلچرعرب کلچرنہیں ہے بلکہ میرا کلچرانڈس سویلائزیشن ہے۔رضا ربانی نے کہا کہ اس معاشرے میں کسی کو بھی مکمل طورپر کام کرنے کا حق نہیں، کوئی جج اپنا فیصلہ دیتا ہے توریاست اس کو عبرت کا نشان بنادیتی ہے۔سینیٹر رضا ربانی نے کہا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات ہوئے اور کہا گیا سیز فائر ہو گیا۔ ریاست کو بتانا ہوگا کہ کن شرائط پر ٹی ٹی پی کے ساتھ سیز فائر ہوا۔انہوںنے کہا کہ لاپتہ افراد کوان کے اہلِ خانہ ڈھونڈتے ہیں تو ان کو نہیں چھوڑا جاتا، ریاست ہمیشہ خاموش تماشائی بن کر تمام معاملات کو دیکھتی رہی۔سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ دہشت گرد گروپوں نے ریاست کے نظام کو پارہ پارہ کیا پھر بھی ریاست خاموش رہی،اس میں سیاسی قوتوں کی شمولیت صفر ہے۔انہوںنے کہا کہ ہم طالبان کی حمایت تو ضرورکرتے ہیں لیکن افغان فورسزنے باڑ لگانے سے روک دیا ہے، یہ خبر کل کے اخباروں میں آئی ہے۔سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ حکومت کی پالیسی کیا ہے؟ ہم طالبان کی بات تو کررہے ہیں لیکن وزیر خارجہ ایوان کو یہ بتائیں گے کہ افغانستان نے ہمیں باڑ لگانے سے کیوں منع کیا؟ ریاست اب مزید خفیہ معاہدوں کی متحمل نہیں ہوسکتی۔سابق چئیرمین سینیٹ نے کہا کہ ہم نے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کیے اورکہا گیا کہ اب سیز فائر کی خلاف ورزی نہیں ہوگی۔ آج ہمارے جوان سیز فائر کی خلاف ورزی پرشہید ہو رہے ہیں۔ القاعدہ کے گروپس افغان بارڈر پراب بھی موجود ہیں۔سینیٹر رضا ربانی نے شوکت ترین کو سینیٹر کا حلف اٹھانے پر مبارکباد دی۔