اسلام آباد ( آئی پی ایس) قومی اسمبلی کے اجلاس میں سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد بڑھانے کا ترمیمی بل مؤخر کردیا گیا، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بل مؤخر کرنے کی تجویز دی۔
تفصیلات کے مطابق اسپیکر ایاز صادق کی زیرصدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا، اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر مصدق ملک نے کہا کہ گرین کارپیٹو انیشیٹو کے تحت بنجر زمین کو قابل کاشت بنا رہے، مںصوبے کے تحت 8 لاکھ ایکڑ زمین مختص کی گئی ہے، 2 صوبوں پنچاب اور سندھ نے تعاون کیا ہے۔
مصدق ملک نے مزید کہا کہ 211 ارب کا منصوبہ 296 کلو میٹر کنال بنائی جائے گی، پنجاب اپنے حصے کا پانی دے گا کسی اورصوبے کا پانی نہیں کیا جائے گا، بنجر زمین کو آباد کرنے کے لیے پنجاب کا پانی استعمال ہوگا، 4 ماہ پانی پنجاب کا پانی سے اور دو ماہ سیلاب کا پانی استعمال ہوگا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمرنے کہا کہ پاکستان میں پانی کی قلت ہے، پاکستان پانی کے لحاظ سے قحط زدہ علاقہ ہے، کالا باغ ڈیم سےجان چھڑائی ہے تو اب کارپوریٹ فارمنگ لیا جارہا ہے، 48 لاکھ ایکٹر اراضی کےلیے پانی لینے سے نیچے سندھ کو کیا پانی ملے گا؟ اضافی پانی کہاں سے آئے گا جبکہ آپ کے پاس پہلے سے ہی قلت ہے۔
مصدق ملک نے کہا کہ وفاق کے پاس یہ حق نہیں کہ صوبوں کو بتائے پانی کا استعمال کس طرح کرے، ہر ایک کو اپنا فیصلہ خود کرنا ہے، 2 ہی صوبوں نے اس پر اتفاق کیا ہے، ہم ٹیلی میٹری کا پروگرام ترتیب دے چکے ہیں، کسی کو کوئی بھی خدشات ہیں تو میں ان کے ساتھ بیٹھ جاؤں گا۔
میرغلام علی تالپور نے کہا کہ نئے وڈیرے نئے چوہدری بنائے جا رہے ہیں، یہ زمینیں وہاں کے لوگوں کو ہی دی جائیں۔ اس پر سید حسین طارق نے کہا کہ زمین منتخب صوبائی حکومت نے دی یا نگراں صوبائی حکومت نے دی؟
وفاقی وزیر مصدق ملک نے کہا کہ ہم پروڈکٹیو فارمنگ کریں گے، اگر آپ کی بات ٹھیک ہے تو فیصلہ واپس لے لیں، منتخب حکومت تو آچکی ہے فیصلہ واپس لے لیں، ہمیں تو سی سی آئی سے جو حکم ہوگا اس کی اطاعت کرتے ہیں۔
خورشید شاہ
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے کہا کہ منسٹر کے جوابات سے بڑا مایوس ہوا ہوں، اب تو سیلاب ہے،ایک کمیٹی بنالیں، ابھی تک ٹیلی میٹری نہیں ہوئی، یہ ہوگا بھی نہیں، یہ ہم بہت بڑا رسک لے رہے ہیں، کسی نے کیلکولیشن کیا ہے اس کے لیے کتنا پانی چاہیئے؟ آج پانی کی کپیسٹی 14 ملین ایکڑ فیٹ ہے، یہ فیصلہ نگراں حکومت میں ہوا۔
فوجداری قوانین میں مزید ترمیم کا بل پیش
پاکستان تحریک انصاف کے سہیل سلطان نے فوجداری قوانین میں مزید ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا۔
سہیل سلطان نے کہا کہ بینک کے چیک بینک سے باؤنس ہوتے ہیں، اس طرح کے مقدمات میں سزا محض تین سال ہے، 3 سال کی سزا بہت کم ہے، آسانی سے ضمانت مل جاتی ہے۔
اس پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ سزاؤں کی پالیسی قانون سازی میں نہیں آنی چاہیئے جبکہ بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا۔
آرٹیکل 51، 59 اور 106 میں ترامیم کا آئینی ترمیمی بل پیش
جمیعت علمائے اسلام (ف) کے نور عالم خان نے آرٹیکل 51، 59 اور 106 میں ترامیم کا آئینی ترمیمی بل پیش قومی اسمبلی میں پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ترمیمی بل کے ذریعے اوورسیز پاکستانیوں کو پارلیمنٹ میں نمائندگی دی جائے گی۔
نورعالم خان نے کہا کہ اس معاملے پر پہلے سے کام ہو رہا ہے جبکہ آئینی ترمیمی بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا۔
آئین کے آرٹیکل 177، 193 اور208 میں ترامیم کا آئینی ترمیمی بل پیش
اسی طرح آئین کے آرٹیکل 177، 193 اور 208 میں ترامیم کا آئینی ترمیمی بل بھی پیش ایوان میں پیش کیا گیا۔
نور عالم خان نے کہا کہ ہم آرٹیکل 206 کے تحت وزیراعظم، چئیرمن سینیٹ ، سپیکرقومی اسمبلی سروس سٹرکچرکا حصہ نہیں، عوامی نمائندے دوہری شہریت کے ساتھ پارلیمنٹ کا حصہ نہیں ہوسکتے، ترمیمی بل میں ججزاوربیوروکریٹس کی دوہری شہریت کی ممانعت کی گئی ہے، اعلیٰ عدالتوں میں ججز کی تعیناتی آئینی معاملہ ہے جبکہ آئینی ترمیمی بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا۔
توہین عدالت آرڈیننس کی منسوخی کا بل پیش
توہین عدالت آرڈیننس کی منسوخی کا بل قومی اسمبلی میں پیش کردیا گیا، بل جمیعت علمائے اسلام (ف) کے نور عالم خان نے پیش کیا۔
نور عالم خان نے بتایا کہ کتنے وزیراعظم توہین عدالت کے ذریعے گھر بھیجے گئے، پارلیمنٹ کا احترام نہیں کیا جاتا،یہاں کے نمائندوں کوگھربھیجا جاتا ہے، توہین عدالت انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی ہے، عوامی نمائندے اوربیوروکریسی سے زبردستی کام لیا جاتا ہے۔
جمیعت علمائے اسلام (ف) کے نور عالم خان نے توہین عدالت آرڈیننس میں ترمیم کی حمایت کردی۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آزادی اظہارِ رائے کو مدنظر رکھ کر قانون بننا چاہیئے۔
دوسری جانب چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹر گوہر نے توہین عدالت آرڈیننس کی تنسیخ کے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ بل کی اجازت نہ دی جائے، بل دوبارہ متعارف کرایا جائے، بل قائمہ کمیٹی میں جائے گا جس سے وقت اوروسائل کا ضیاع ہو گا۔
اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے بل متعلقہ کمیٹی کے سپرد کردیا، انہوں نے کہا کہ بل قانون و انصاف کی قائمہ کمیٹی کو بھجوا دیا گیا ہے۔
آرٹیکل 198 میں ترمیم کا آئینی ترمیمی بل پیش
آرٹیکل 198 میں ترمیم کا آئینی ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا، بل چنگیز احمد خان نے ایوان میں پیش کیا۔
چنگیز احمد خان نے کہا کہ فیصل آباد ڈویژن کی آبادی 2 کروڑ سے زیادہ ہے، ترمیم کے ذریعے فیصل آباد میں ہائیکورٹ کا بینچ تشکیل دیا جائے گا۔
اس پر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ہائیکورٹ بینچزکی تعداد میں اضافے یاکمی کا اختیارصوبوں کے پاس ہے، یہ صوبوں کا اختیار ہے، وفاق اس میں مداخلت نہیں کرسکتا جبکہ بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا۔
سول سرونٹ ایکٹ 1973 میں ترمیم کا بل پیش
بل نور عالم خان نے سول سرونٹ ایکٹ 1973 میں ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا اور کہا کہ یہ بل بھی بیوروکریٹس کی دوہری شہریت سے متعلق ہے، دوہری شہریت کے حامل کسی بیوروکریٹ کا عہدے کا حامل نہیں ہونا چاہیئے۔
وفاقی وزیر پارلیمانی امور اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے اس بل کی مخالفت کی سفارش کی ہے، اسٹریٹیجک عہدوں پرپہلےسے ہی کوئی دوہری شہریت والا بیوروکریٹ تعینات نہیں ہوسکتا، فوج اورپارلیمنٹ میں دوہری شہریت کے حامل لوگ نہیں آ سکتے۔
آغا رفیع اللّٰہ نے کہا کہ یہ بل بہت ضروری ہے جبکہ سول سرونٹ ایکٹ 1973 میں مزید ترمیم کا بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا۔
سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد میں اضافے کا بل پیش
سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد میں اضافے کا بل ایوان میں پیش کردیا گیا، حکومتی رکن دانیال چوہدری نے قومی اسمبلی میں بل پیش کیا۔ بل پیش کرنے کا مقصد سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد 17 سے بڑھا کر 23 کرنا ہے۔
مسلم لیگ ن کے رکن اسمبلی دانیال چوہدری نے بل پیش کرنے کی اجازت کی تحریک پیش کرتے ہوئے کہا کہ جب آخری مرتبہ یہ بل متعارف ہوا تھا اس وقت آبادی 16 کروڑ تھی، سپریم کورٹ میں پینڈنگ کیسز 54 ہزار سے زیادہ ہیں، نظریہ ضرورت کے مطابق بل آرہا ہے۔
پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا کہ یہ بل پرائیویٹ ممبرکے طورپرپیش نہیں ہوسکتا، ججزکی تعداد بڑھنا صرف حکومت کی صوابدید ہے۔
اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد بڑھانے کا ترمیمی بل مؤخرکردیا جبکہ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بل مؤخر کرنے کی تجویز دی۔