اسلام آباد( آئی پی ایس ) اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر احسن ظفر بختاوری نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ سستی بجلی فراہم کرکے اورمناسب ٹیکس عائد کرکے صنعت اور کاروبار کو فروغ دینے کے لیے ایک قابل عمل حل وضع کرے۔
پیر کو جاری کردہ ایک بیان میں، انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ بے تحاشہ ٹیکس، بجلی کی زیادہ قیمتیں، اور امن و امان کی خراب صورت حال نہ صرف معیشت کو بری طرح متاثر کرتی ہیں بلکہ بے روزگاری کو مزید تیز کر سکتی ہیں۔ بختاوری نے نشاندہی کی کہ جب افراط زر پہلے ہی 12 فیصد تک گر چکا ہے تو حد سے زیادہ شرح سود کو 20 اعشاریہ5 فیصد پر برقرار رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ صنعت کو 9 سینٹس فی کلو واٹ فی گھنٹہ کی شرح سے بجلی فراہم کرنے سے برآمدات میں 6 بلین ڈالر کا اضافہ ہوگا، گرڈ میں 300 میگاواٹ سے زائد کا اضافہ ہوگا۔احسن بختاوری نے اس بات پر زور دیا کہ جب حکومت کراس سبسڈی کے تحت زیادہ چارجز عائد کرتی ہے تو تاجر برادری بین الاقوامی آرڈرز کی تکمیل نہیں کر سکتی۔
انہوں نے سوال کیا کہ کیوں بین الاقوامی خریدار پاکستان کو ویتنام اور بنگلہ دیش جیسے ممالک پر ترجیح دیتے ہیں، جو سستی توانائی فراہم کرتے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ برآمدی صنعت زوال پذیر ہے، اور پاکستان تیزی سے مارکیٹ شیئر کھو رہا ہے کیونکہ بجلی مسابقتی ممالک کی نسبت دوگنا مہنگی ہے۔انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ توانائی کی موجودہ قیمتوں کے ساتھ، 60-70 صنعت بند ہو سکتی ہے، خاص طور پر صنعت کے لیے گھریلو گیس کے نرخوں میں نمایاں اضافہ توانائی کے غیر مسابقتی ٹیرف برآمدی ترقی اور برآمدی شعبے میں سرمایہ کاری میں رکاوٹ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی بجٹ کے اعلان کے بعد ملک بھر کے تمام 228 چیمبرز اور تجارتی تنظیمیں بے چینی کا شکار ہیں۔بختاوری نے کہا کہ انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (IPPs) کوادائیگیوں سے ملک کی اقتصادی سرگرمیوں کو مفلوج کر دیا ہے۔ انہوں نے آئی پی پیز کے کیپسٹی چارجز کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بجلی پیدا نہ ہونے پر بھی انہیں ادائیگی کی جاتی ہے۔ یہ چارجز کل لاگت کا دو تہائی بنتے ہیں، باقی ایک تہائی ایندھن کے اخراجات پر مشتمل ہوتے ہیں۔ تحقیقات سے پتہ چلا کہ آئی پی پیز ڈالر کے لحاظ سے 73 فیصد سے زیادہ سرمایہ کاری پر واپسی کا لطف اٹھا رہے ہیں، جو کہ بین الاقوامی معیار کے مقابلے میں غیر معمولی طور پر زیادہ شرح ہے۔ اصل میں نجی سرمایہ کاری کو راغب کر کے توانائی کے بحران کو کم کرنے کا ارادہ کیا گیا تھا، ان معاہدوں کی وجہ سے گردشی قرضے میں اضافہ ہوا، جو فروری 2024 میں 2.64 ٹریلین روپے تک پہنچ گیا۔
بختاوری نے کہا کہ تاجر ٹیکس دینے کو تیار ہیں لیکن پالیسیوں کی پیچیدگی کی وجہ سے حوصلہ شکنی کا شکار ہیں۔ مینوفیکچررز کے لیے نقد لین دین پر پابندیاں اور 40 لاکھ روپے سے زیادہ کی سرکاری خریداری والے خوردہ فروشوں کے لیے لازمی(پوائنٹ آف سیل)رجسٹریشن کے ساتھ ساتھ ود ہولڈنگ ٹیکس کے نظام میں مینوفیکچرنگ یونٹس کی شمولیت، کاروبار کی ترقی میں رکاوٹ بنے گی۔انہوں نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ ملک ان چیلنجوں پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتا ہے، بشرطیکہ جامع، طویل مدتی اور اچھی طرح سے تیار کردہ اقتصادی پالیسیوں پر عمل پیرا ہو۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ایک قابل عمل معاشی پالیسی وضع کرنے کے لیے تاجر رہنماں سے فوری مشاورتشروعکرے۔