اسلام آباد(آئی پی ایس)سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ جب آئین کے الفاظ واضح ہیں تو ہماری کیا مجال ہم تشریح کریں، کیا ہم پارلیمنٹ سے زیادہ عقلمند یا ہوشیار ہو چکے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ کیس کی سماعت کی۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ عدالت کو آئین کی پروگریسو تشریح کرنی ہوگی، جسٹس جمال مندوخیل اپنے ایک حالیہ فیصلے میں اسی نوعیت کی تشریح کر چکے ہیں، فیصلے میں کہا گیا کہ آئین درخت کی طرح ایک زندہ دستاویز ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آئین میں کیا لکھا ہوا ہے یہ بتائیں۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ کسی رکن کی پولیٹیکل پارٹیز میں شمولیت کے طریقے کار بارے بھی بتائیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا ہم آئین کے نیچرل معنی کو نظر انداز کر دیں، ہم ایسا کیوں کریں۔
وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ اصل معاملہ آئینی شقوں کے مقصد کا ہے۔ سٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جنھوں نے الیکشن لڑنے کی زحمت ہی نہیں کی انھیں کیوں مخصوص نشستیں دی جائیں۔
جسٹس عرفان سعادت خان نے کہا کہ آپ کے دلائل سے تو آئین میں دیے گئے الفاظ ہی غیر موثر ہو جائیں گے، سنی اتحاد کونسل تو پولیٹیکل پارٹی ہی نہیں ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انتخابی نشان چلے جانے کے بعد پولیٹیکل پارٹی نہیں رہی لیکن پولیٹیکل ان لسٹڈ پولیٹیکل پارٹی تو ہے، الیکشن کمیشن نے ان لسٹڈ پارٹی تو قرار دیا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی اگر اب بھی پولیٹیکل پارٹی کا وجود رکھتی ہے تو انھوں نے دوسری جماعت میں کیوں شمولیت اختیار کی، اگر اس دلیل کو درست مان لیا جائے تو آپ نے دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرکے خودکشی کیوں کی، یہ تو آپکے اپنے دلائل کے خلاف ہے۔
جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے رول 92 کی ذیلی شق دو پڑھیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آزاد امیدوار الیکشن کمیشن نے قرار دیا لیکن الیکشن کمیشن کی رائے کا اطلاق ہم پر لازم نہیں، پارلیمانی جمہوریت کی بنیاد سیاسی جماعتیں ہیں، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی امیدواروں کو سپریم کورٹ فیصلے کے سبب آزاد امیدوار قرار دیا، یہ تو بہت خطرناک تشریح ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ تمام امیدوار پی ٹی آئی کے تھے حقائق منافی ہیں، پاکستان تحریک انصاف نظریاتی کے سرٹیفکیٹس جمع کروا کر واپس کیوں لیے گئے۔
وکیل فیصل صدیقی نے دلائل میں کہا کہ مخصوص نشستیں صرف متناسب نمائندگی کے سسٹم کے تحت ہی دی جا سکتی ہیں اور متناسب نمائندگی کے نظام کے علاوہ مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کا کوئی تصور نہیں، مخصوص نشستیں امیدواروں کا نہیں سیاسی جماعتوں کا حق ہوتا ہے، الیکشن کمیشن ایک جانب کہتا ہے آزاد امیدوار کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہوسکتا ہے اور دوسری جانب الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ شمولیت صرف پارلیمان میں موجود جماعت میں ہوسکتی ہے، الیکشن کمیشن کی یہ تشریح خودکشی کے مترادف ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ عدالت الیکشن کمیشن اور آپ کی تشریح کی پابند نہیں بلکہ آئین میں درج الفاظ کی پابند ہے، ممکن ہے کہ عدالت الیکشن کمیشن کی تشریح سے متفق ہو اور نہ آپ کی تشریح سے۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سوال یہی ہے کہ الیکشن میں حصہ نہ لینے والی جماعت کو مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں یا نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں عدالت آئین میں درج الفاظ کے مطلب پر تشریح نہ کرے، جس پر وکیل نے کہا کہ عدالت نے صرف مطلب کو نہیں بلکہ آئین کی شقوں کے مقصد کو بھی دیکھنا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مخصوص نشستیں ایسی جماعت کو کیسے دی جا سکتی ہیں جنہوں نے الیکشن لڑنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ جسٹس امین الدین خان نے سوال کیا کہ کیا آزاد ارکان نئی سیاسی جماعت قائم کر سکتے ہیں؟
وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ آزاد ارکان اگر تین دن میں سیاسی جماعت رجسٹر کروا سکتے ہیں تو ضرور اس میں شامل ہوسکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کہتے ہیں سیاسی جماعت کے لیے انتخابات میں نشست حاصل کرنا ضروری نہیں ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ مخصوص نشستوں کا انتخابی نشان نہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں، الیکشن کمیشن تسلیم کرتا ہے کہ پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل دونوں رجسٹرڈ جماعتیں ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی رجسٹرڈ جماعت ہے تو آزاد ارکان اس میں شامل کیوں نہیں ہوئے؟ کیا آزاد ارکان نے پی ٹی آئی جوائن نہ کرکے سیاسی خودکشی نہیں کی؟
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ آپ کے دلائل مفادات کا ٹکراؤ ہیں، یا آپ سنی اتحاد کونسل کی نمائندگی کریں یا پی ٹی آئی کی نمائندگی کریں، ہم نے صرف دیکھنا ہے آئین کیا کہتا ہے، ہم یہ نہیں دیکھیں گے الیکشن کمیشن نے کیا کیا، نظریاتی میں گئے اور پھر سنی اتحاد کونسل میں چلے گئے، آپ صرف سنی اتحاد کونسل کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ اس ملک میں متاثرہ فریقین کے لیے کوئی چوائس نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیاسی باتیں نہ کریں، ملک میں ایسے عظیم ججز بھی گزرے ہیں جنھوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کیا، صرف آئین پر رہیں۔
وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ ایک رات پہلے انتخابی نشان لے لیا گیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سنی اتحاد کونسل کی نمائندگی کر رہے ہیں، سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان ہے کیا، جس پر وکیل نے بتایا کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان گھوڑا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان تو لیا ہی نہیں گیا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے امیدواروں کو آزاد قرار دیا تو اپیل کیوں دائر نہیں کی۔ وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ اس سوال کا جواب سلمان اکرم راجہ دیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ رولز آئین کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔
وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ صاحب نے کہا تھا 80 فیصد لوگ آزاد ہو جاتے ہیں تو کیا 10 فیصد والی سیاسی جماعتوں کو ساری مخصوص نشستیں دے دیں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جی بالکل آئین یہی کہتا ہے، کسی کی مرضی پر عمل نہیں ہو سکتا، اس ملک کی دھجیاں اسی لیے اڑائی گئیں کیونکہ آئین پر عمل نہیں ہوتا، میں نے حلف آئین کے تحت لیا ہے، پارلیمنٹ سے جاکر آئین میں ترمیم کرا لیں، ہمارے آئین کو بنے 50 سال ہوئے ہیں، امریکا اور برطانیہ کے آئین کو صدیاں گزر چکی ہیں، جب آئین کے الفاظ واضح ہیں تو ہماری کیا مجال ہم تشریح کریں، کیا ہم پارلیمنٹ سے زیادہ عقلمند یا ہوشیار ہو چکے ہیں، اگر ہم نے ایسا کیا تو یہ ہماری انا کی بات ہو جائے گی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ مشکل سے ملک پٹری پہ آتا ہے پھر کوئی آکر اڑا دیتا ہے، پھر کوئی بنیادی جمہوریت پسند بن جاتا ہے، ہمارا آئین ہے ہی پروگریسو ہے، اب اس سے زیادہ کیا پروگریسو ہوگا، کبھی کبھی پرانی چیزیں بھی اچھی ہوتی ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن پر سوالات اٹھائے گئے، جو کچھ 2018 میں ہوا وہی ابھی ہوا، جنھوں نے پریس کانفرنسز نہیں کیں، انھیں اٹھا لیا گیا، یہ باتیں سب کے علم میں ہیں، کیا سپریم کورٹ اس پر اپنی آنکھیں بند کر لے، لیول پلئینگ فلیڈ نہ ملنے کا کہا گیا۔ وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ میں آپکی باتوں سے مکمل متفق ہوں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جس کو لیول پلئینگ فیلڈ نہیں ملی وہ ہمارے سامنے آئے ہی نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب ضرورت ہوتی ہے ہمارے پاس آتے ہیں، وہ وقت بھی یاد رکھیں جب الیکشن کے انتخابات کی تاریخ ہم نے دی تھی، الیکشن کس نے کروائے، الیکشن رکوانے کی کوشش پی ٹی آئی نے کی، صدر مملکت اس وقت کون تھے، عارف علوی تھے، کیا پی ٹی آئی کو ہم نے کہا انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروائیں، منت، سماجت کی گئی الیکشن کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کروائے، اس وقت وزیراعظم عمران خان تھے، عمران خان بطور وزیراعظم بھی الیکشن کمیشن پر اثرانداز ہو رہے تھے، سال بھر کی تاریخ دی گئی الیکشن کروانے کیلئے، یا تو پھر قانون کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں، جب ہم ووٹر کی بات کر رہے ہیں تو ساڑھے آٹھ پی ٹی آئی کے ممبران کا حق کدھر کیا، آدھی بات نہ کریں۔
وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کے خلاف نظرثانی زیر التوا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ہم چیک کروا لیتے ہیں، حامد خان صاحب آپ نے ہمیں یاد بھی کروایا کہ نظرثانی زیر التوا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ فرض کریں اگر یہ اصول طے کیا جاتا ہے کہ امیدوار پی ٹی آئی کے تھے تو پھر آپ کدھر کھڑے ہوں گے۔ وکیل نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا، جس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ نے تو اپنے دلائل خود ہی دھو دیے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ کیسا فرق ہوتا ہے کہ کوئی آزاد الیکشن لڑ رہا ہے یا جماعت کا امیدوار ہے؟ کاغذات نامزدگی جمع کرواتے وقت سرٹیفکیٹ اسی لیے رکھا گیا ہے، وہاں ان امیدواروں نے خود کو کیا ظاہر کیا تھا وہاں سے شروع کریں۔
جسٹس میاں محمد علی مظہر نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو پھر وہ امیدوار پی ٹی آئی میں ہی رہتے اور مخصوص نشستیں مانگتے، یہ لوگ دوسری جماعت میں چلے گئے اب پی ٹی آئی کا کیس ہمارے سامنے نہیں ہے۔
کیس کی سماعت میں مختصر وقفہ کر دیا گیا۔