پاکستانٹاپ سٹوری

مالی سال 25-2024 کا بجٹ پیش، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 25فیصد تک کا اضافہ


اسلام آباد(آئی پی ایس)وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نئے مالی سال 25-2024 کا بجٹ پیش کردیا جس میں وفاقی ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد تک اضافے کے ساتھ ساتھملک میں ملازمین کی کم از کم تنخواہ 36ہزار روپے مقرر کرنے کی تجویز دی گئی ہے اور ملک کے دفاعی اخراجات کے لیے 21 سو 22 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اس معزز ایوان کے سامنے مالی سال 25-2024 کا بجٹ پیش کرنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے، فروری 2024 کے انتخاب کے بعد مخلوط حکومت کا یہ پہلا بجٹ ہے اور میں وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کی قیادت خصوصاً محمد نواز شریف، بلاول بھٹو زرداری، خالد مقبول صدیقی، چوہدری شجاعت حسین، عبدالعلیم خان اور خالد حسین مگسی کی رہنمائی کے لیے دل کی اتاہ گہرائیوں سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ سیاسی اور معاشی چیلنجز کے باوجود پچھلے ایک سال کے دوران اقتصادی محاذ پر ہماری پیشرفت متاثر کن رہی ہے، ہم سب نے معاشی استحکام اور عوام کی بہتری کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کے مل بیٹھنے کی بازگشت کئی بار سنی ہے ، آج قدرت نے پاکستان کو معاشی ترقی کی راہ پر چلنے کا ایک اور موقع فراہم کیا ہے، ہم اس موقع کو زائل کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے سال جون میں آئی ایم ایف پروگرام اپنے اختتام کو پہنچ رہا تھا اور نئے پروگرام سے متعلق بہت غیریقینی کیفیت تھی، نئےپروگرام میں تاخیر کافی مشکلات پیدا کر سکتی تھیں لیکن شہباز شریف کی سابقہ حکومت نے آئی ایم ایف سے اسٹینڈ بائی معاہدہ کیا، اس پروگرام کے تحت لیے جانے والے اقدامات کے نتیجے میں معاشی اصلاحات کی راہ ہموار ہوئی اور غیریقینی کی صورتحال اختتام کو پہنچی۔
سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا کہ مئی میں مہنگائی کم ہو کر تقریباً 12فیصد پر آ گئی ، اشیائے خورونوش اب عوام کی پہنچ میں ہیں اور درپیش چیلنجز کو دیکھا جائے تو یہ کوئی معمولی کامیابی نہیں اور آنے والے دنوں میں مہنگائی مزید کم ہونے کا امکان ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بتایا کہ ہم اس امید کے ساتھ ہوم گرون ریفارم ایجنڈے کو پختہ ارادے اور عزم کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں کہ پاکستان جلد ہی شمولیت اور پائیدار ترقی کے دور کی طرف لوٹ آئے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہر کوئی اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ راستہ بھت کٹھن ہے اور ہمارے پاس آپشنز محدود ہیں مگر یہ اصلاحات کا وقت ہے، یہی وقت ہے کہ ہم اپنی معیشت میں نجی شعبے کو مرکزی اہمیت دیں اور چند افراد کے بجائے پاکستان کو اپنی ترجیح بنائیں، ہم معاشی عدم توازن کے گرداب میں پھنسے ہیں، اس کی وجہ وہ اسٹرکچرل فیکٹرز ہیں جن کی وجہ سے سرمایہ کاری، معاشی پیداوار اور برا ٓمدات دباؤ کا شکار ہیں، ماضی میں ریاست پر غیر ضروری بوجھ ڈالا گیا جس کی وجہ سے حکومتی اخراجات ناقاب برداشت ہوگئے، اس کا خمیازہ مہنگائی، کم پیداواری صلاحیت اور کم آمدن والی ملازمتوں کی سورت مین عوام کو بھگتناپڑا۔
وزیر کا کہنا تھا کہ اس کم ترقی کی سائیکل سے باہر آنے کے لیے اسٹرکچرل ریفارمز کو آگے بڑھانا ہے اور معیشت میں مراعات کو صحیح کرنا پڑے گا جیسا کہ:
1۔ ہمیں ایک حکومت کی جانب سے معاشی تعین کرنے کے بجائے مارکیٹ پر مبنی معیشت کی طرف جانا ہے۔
2۔ ہمارے معاشی نظام کو عالمی معیشت کے ساتھ چلتے ہوئے برآمدات کو فروغ دینا ہوگا۔
3۔ ہماری معاشی ترقی کو کھپت کی بنیاد کے بجائے سیونگز اور سرمایہ پر مبنی ہونا چاہیے۔
وفاقی وزیر نے بتایا کہ معاشی نظام میں یہ تبدیلیاں لاتے ہوئے ہمیں مساوات اور شمولیت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، ہمیں درجہ ذیل پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہوئے جرات مندانہ اقدامات کی ضرورت ہے۔
1 ۔ تمام جدید معیشتوں کی طرح ہمیں بھی وسیع پیمانے پر نجکاری اور ریگولیٹری اصلاحات کرتے ہوئے ریاست کے فٹ پرنٹ کو صرف اہم پبلک سروسز تک محدود رکھنا ہوگا۔
2 ۔ پیداواری صلاحیت میں بہتری لانے کے لیے اندرون ملک اور بیرون ملک سے سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی اور ریگولیٹری اور انویسٹمنٹ کلائمیٹ امپروومنٹس کرنی ہوں گی۔
3 ۔ بروڈ بیس فیئر ٹیکسیشن ریجیم کا قیام بھی انتہائی ضروری ہے جو سب کے لیے یکساں مواقع فراہم کرے برآمد مخالف تحریف کو ختم کرے۔
4 ۔ توانائی کی قیمت کو کم کرنے کے لیے توانائی کے شعبے میں مارکیٹ پر مبنی اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے۔
5 ۔ جدید معیشت کے لیے صحت، تعلیم اور اسکل ڈیولپمنٹ کے نظام کی تشکیل انتہائی ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بجٹ خسارے کو کم کرنا ہمارا اہم مقصد ہو گا اور اس سلسلے میں ایک منصفانہ ٹیکس پالیسی کی بدولت اپنی آمدن کو بہتر بڑھائیں گے اور غیرضروری اخراجات کو کم کریں گے لیکن یہ کمی کرتے ہوئے ہمیں انسانی ترقی، سماجی تحفظ اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے اقدامات کو ترجیح دینا ہو گی اور ان میں کمی نہیں لائی جائے گی۔
انہوں نے توانائی کے شعبے کو موثر بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں پیداواری لاگت کو کم، ایس ای او کی تنظیم نو اور نجکاری کرنی ہے اور اچھی گورننس اور سب کو یکساں مواقع فراہم کر کے نجی شعبے کو فروغ دینا ہے جہاں اس سب کا مقصد آمدن سے زائد اخراجات کے دائمی مسئلے کو حل کرنا ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان جی ڈی پی کے مقابلے میں ٹیکس کی شرح میں دوسرے ممالک سے کافی پیچھے ہے، اسی لیے ٹیکس نظام میں اصلاحات ہماری معاشی کامیابیوں کے لیے انتہائی اہم ہیں، ایف بی آر میں کثیرالجہتی اقدامات پہلے سے جاری ہیں اور وزیر اعظم ڈیجیٹلائزیشن، ٹیکس پالیسی اور ایف بی آر میں انتظامی اصلاحات پر گہری نگاہ رکھے ہوئے ہیں اور ان کی واضح ہدایت ہے کہ ٹیکس نیٹ میں پہلے موجود لوگوں پر بوجھ نہ ڈالا جائے بلکہ ٹیکس کے دائرہ کار میں وسعت لائی جائے۔
تاجر دوست اسکیم کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس اسکیم کا مقصد ہول سیلرز، ڈیلز اور ریٹیلرز کو رجسٹر کرنا ہے اور اب تک ہم 30ہزار 400 افراد کی رجسٹریشن کر چکے ہیں اور آنے والے دنوں میں اس میں مزید تیزی لائی جائے گی جس کے لیے موجودہ ڈیٹا کا موثر استعمال کیا جائے گا۔
انہوں نے مجموعی وسائل میں اضافے کے لیے صوبوں اور حکومت کے مل کر کام کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم تمام صوبائی حکومتوں کے ساتھ ایک جامع ’نیشنل فسکل پیکٹ تجویز کرتے ہیں کیونکہ ہم آہنگی اور یگانگت خودکفالت کے ہدف کو حاصل کرنے کا واحد راستہ ہے اور اس سلسلے میں صوبوں سے مشاورت جاری ہے۔
اخراجات میں کمی کے لیے کیے جانے والے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پی بی ایس ایک سے 16 تک تمام خالی آسامیوں کو ختم کرنے کی تجویز زیر غور ہے جس سے 45ارب روپے سالانہ کی بچت ہونے کا امکان ہے جبکہ وفاقی کابینہ کے حجم کو کم کرنے کے لیے بھی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی حکومت کے بجٹ کا بڑا حصہ گڈز اینڈ سروسز کی پروکیورمنٹ میں صرف ہوتا ہے، پروکیورمنٹ کے نظام میں آسانی اور شفافیت کے ذریعے حکومت کی کارکردگی میں بہتری لانے کے ساتھ ساتھ وسائل کی بچے بھی کی جا سکتی ہے اور ای پروکیورمنٹ کے ذریعے سرکاری خرچ میں 10 سے 20 فیصد تک کمی لائی جا سکتی ہے جبکہ یہ نظام میں کرپشن، فراڈ اور بدنیتی جیسے مسائل پر قابو پانے میں بھی معاون ثابت ہو گا۔
اس سلسلے میں مزید تفصیلات بتاتے ہوئے سینیٹر نے کہا کہ یہ نظام 37وزارتوں اور 279 پروکیورنگ ایجنسیوں میں نافذ ہو چکا ہے جس کے تحت 14 ارب روپے کی پروکیورمنٹ ہو چکی ہے، پروکیورمنٹ ایجنسیوں کے ساڑھے 8ہزار ملازمین کی تربیت مکمل کی جا چکی ہے اور 10ہزار 545 سپلائرز اس نظام میں رجسٹر ہو چکے ہیں۔
سرکاری اداروں اور اثاثوں کی نجکاری کا ذکر کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم نے نجکاری کو کلیدی ترجیح بنانا ہے، ہم ناصرف پی آئی اے، روز ویلٹ ہوٹل، ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن اور فرسٹ ویمن بینک جیسے اداروں کی جاری نجکاری میں تیزی لائیں گے بلکہ نجی شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے دیگر ایس او ایز(سرکار کے زیر انتظام اداروں) کو پیش کرنے کا ٹھوس پروگرام بھی شروع کرنے جا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پی آئی اے کی نجکاری میں 12 کمپنیوں نے دلچسپی کا اظہار کیا تھا اور 3 جون کو چھ کمپنیوں کو نجکاری کمیشن کے بورڈ نے پری کوالیفائی کیا، اگست 2024 کے پہلے ہفتے میں سرمایہ کاروں سے بولیاں منگوا لی جائیں گی جس کے بعد یہ سلسلہ پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ بین الاقوامی سطح پر رائج بہترین طریقوں پر عمل کرتے ہوئے حکومت ملک کے بڑے ہوائی اڈوں کو آؤٹ سورس کررہی ہے جس سے مسافروں کو بہترین سہولیات میسر آنے کے ساتھ ساتھ ہوائی اڈوں سے حاصل ہونے والی آمدن میں بھی اضافہ ہو گا، سب سے پہلے اسلام آباد ایئرپورٹ کو آؤٹ سورس کیا جائے گا اور پھر چھ ماہ بعد کراچی اور لاہور ایئرپورٹس کی آؤٹ سورسنگ کا آغاز کیا جائے گا۔
وفاقی حکومت پر کھربوں کی غیر فنڈ شدہ پنشن کی ذمہ داری ہے، پینشن کے اخراجات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، لہزا ان اخراجات میں اضافے کی شرھ کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔
حکومت نے اس کے لیے تین جہتی حکمت عملی ترتیب دی ہے جس میں کافی حد تک مشاورت مکمل ہوچکی ہے۔
1 ۔ بین الاقوامی بہترین طریقوں کے مطابق موجودہ پینشن اسکیم میں اصلاحات لائی جائیں گی، ان کے نتیجے میں اگلی تین دہائیوں میں پینشن کی ذمہ داری میں کمی آجائے گی۔
2 ۔ نئے ملازمین کے لیے معاون پینشن اسکیم ( contributory) متعارف کرانا ہے جس میں حکومت کی شراکت (contribution) ہر ماہ ادا کی جائے گی، اس سے مستقبل کے ملازمین کی پینشن ان کے ملازمت کے آغاز سے ہی مکمل فنڈڈ ہوگی۔
3۔ پینشن کی ذمہ داری کو سنبھالنے کے لیے پینشن فنڈ قائم کیا جائے گا۔
محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) ہمارے سماجی تحفظ کے اقدامات کے سنگ بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے، موجودہ اتحادی حکومت کا عزم ہے کہ کمزور طبقے کی زیادہ سے زیادہ معانت کی جائے، مالی سال 2024-2025 کے بجٹ کے ذریعے کمزور طبقوں کو بی آئی ایس پی پروگرام کے ذریعے معاونت کا سلسلہ جاری رہے گا، آئندہ مالی سال حکموت درجہ زیل پیشرفت کے ساتھ بی آئی ایس پی کی رقم کو 27 فہصد اضافے کے ساتھ 593 ارب روپے تک لے جائی گی:
کفالت پروگرام کے تحت مستفید ہونے والے افراد کی موجودہ تعداد کو 93 لاکھ سے بڑھا کر 1 کروڑ تک کردیا جائے گا، ان خاندانوں کو مہنگائی کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے کیش ٹرانسفر میں بھی اضافہ کیا جائے گا۔
تعلیمی وظائف میں مزید 10 لاکھ بچوں کا اندراج کیا جائے گا، جس سے ان کے وظائف کی کل تعداد 1 کروڑ 4 لاکھ ہوجائے گی۔
نشونما پروگرام کا مقصد بچوں کی زندگی کے پہلے ایک ہزار دنوں کے دوران اسٹنٹنگ کو روکنا ہے، اگلے مالی سال کے دوران 5 لاکھ مزید خاندانوں کو اس پروگرام میں شامل کیا جائے گا۔
معاشی شمولیت (economic inclusion) کو فروغ دینے اور لوگوں کے معاشی حالات کو بہتر بنانے حکومت بی آئی ایس پی کے تحت پہلی مرتبہ پوورٹی گریجویشن ایند اسکلز ڈیولپمنٹ پروگرام کا آغاز کرنے جارہی ہے، اس کے علاوہ بی آئی ایس پی کے ذریعے مالی خودمختاری کا ایک ہائبرڈ سوشل پروٹیکشن پروگرام متعارف کرانے کے منصوبے کا بھی آغاز کیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انسانی ترقی میں سرمایہ کاری حکومت کی بہترین سرمایہ کاری ہے اور حکومت بچوں کی تعلیم کے لیے ماحول کی فراہمی میں خاطر خواہ سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
اس سلسلے میں تفصیلات بتاتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ اسلام آباد کے 167 سرکاری اسکولوں میں انفراسٹرکچر اور تعلیمی سہولیات کو بہتر بنانے کے لیے رقم مختص کرنے کی تجویز ہے۔ جبکہ بچوں کی نشونما کے لیے ہم School meal program متعارف کروا رہے ہیں جس کے تحت اسلام آباد کے 200 پرائمری اسکولوں میں طلبہ کو متوازن اور غذائیت سے بھر پور کھانا فراہم کیا جائے گا۔
اسلام آباد کے سولہ (16) ڈگری کالجوں کو NUML ،NSU ،NUST اور COMSATS جیسی مشہور یونیورسٹیوں کے تعاون سے اعلیٰ نتائج کے حامل تربیتی اداروں میں تبدیل کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ دیہی سے شہری علاقوں تک طالبات کے سفر کے لیے پنک بسیں متعارف کرناے کے ساتھ ساتھ دانش اسکولوں کے پروگرام کو اسلام آباد، بلوچستان، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان تک پھیلایا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ہمارے معاشی ڈھانچے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں لہٰذا ان کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر کے فروغ کے لیے بجٹ میں 86.9 ارب روپے کی رقم مختص کرنے کی تجویز ہے، یہ رقم Re-imbursment of TT Charges، سوہنی دھرتی اسکیم اور دیگر اسکیموں کیے لیے استعمال کی جائے گی۔
آئندہ مالی سال 24-2023 کے بجٹ میں گریڈ ایک سے 16 کے سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں 25 فیصد اضافے کی تجویز دی گئی ہے جب کہ گریڈ 17 سے 22 تک کے ملازمین کے لیے 22 فیصد اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔
اس کے علاوہ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں بھی 22 فیصد اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔
اسی طرح ملازمین کی کم از کم تنخواہ 36 ہزار روپے مقرر کرنے کی تجویز بھی بجٹ کا حصہ ہے۔
فنانس بل میں پیٹرولیم منصوعات پر فی لیٹر لیوی 20 روپے تک بڑھانے کی تجویز دیتے ہوئے لیوی کی حد 60 روپے سے بڑھا کر 80روپے کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
ملک کے دفاعی اخراجات کے لیے 21 سو 22 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دینے کے ساتھ ساتھ موبائل فونز پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز بھی بجٹ کا حصہ ہے۔
یاد رہے کہ بجٹ اجلاس شام چار بجے شروع ہونا تھا لیکن کچھ وجوہات کی وجہ سے یہ تقریباً دو گھنٹے تاخیر سے شروع ہوا۔

Back to top button

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker