کالم /بلاگز

سوشل میڈیا انفلونسر بننے کی دوڑ میں ذاتی مواد کی حساسیت اور اخلاقی اقدارکی حدود


تحریر: غلام رحمان
آج کے ڈیجیٹل دور میں سوشل میڈیا کا استعمال ہماری روزمرہ کی زندگی کا ایک لازمی حصہ بن چکا ہے۔ نوجوان نسل میں فیس بک، انسٹاگرام، یوٹیوب اور ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز پر تصاویر، ویڈیوز اور خیالات سمیت ذاتی مواد شیئر کرنے کے رجحان میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہورہا ہے، اور ہرکوئی ایک دوسرے سے بڑا "Influencer” اور”content creator” بن کر پیسہ کمانے اور شہرت حاصل کرنے کی کشمکش میں مبتلا نظر آرہیں ہیں۔

سوشل میڈیا کی شہرت یقیناً پرکشش ہے، مگر یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہر کوئی گانچے، بلتستان سے تعلق رکھنے والا 6 سالہ محمد شیراز نہیں بن سکتا جس نے اپنے معصوم Vlogs سے دنیا کو متاثر کیا۔ اسی طرح، ہر کوئی مشہور Vlogger فضا خان نہیں بن سکتی جنہیں حال ہی میں دبئی حکومت کی جانب سے UAE گولڈن ویزا سے نوازا گیا۔

دراصل ہمارے یہاں سوشل میڈیا انفلونسر بننے کی کوشش کرنے والے اکثر وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے پاس نہ تو کوئی خاص مہارت ہوتی ہے اور نہ ہی متاثر کرنے والی صلاحیت۔ اسی وجہ سے ان کے مواد میں کم معیار والی تصاویر، ریلز، خود کی ماڈلنگ، اور انڈین گانوں پر لپسنگ ہی نظر آتی ہے۔

سوشل میڈیا کو کمائی کا ذریعہ بنانے کے لیے کسی بھی کونٹینٹ کریٹر کو سب سے پہلے اپنے شعبے کا انتخاب اور اپنی ٹارگٹ آڈینس متعین کرنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد، اسی شعبے میں کسی خاص مہارت میں اپنا نام بنانا ضروری ہوتا ہے۔ تاہم، کامیابی حاصل کرنے کے لیے مسلسل اعلیٰ معیار کا مواد تیار کرنا، صارفین کو مستند معلومات فراہم کرنا، ان کو engage رکھنا، پلیٹ فارم کے الگورتھم کو سمجھنا، اورmonetization کے حصول اور اس کے قوانین کو پورا کرنا لازمی ہے-

اس کے علاوہ، اگرآپ اپنی سوشل میڈیا مینجمنٹ کی سکلز کو فری لانسر کے طور پراستعمال کرکے دو چار کلائنٹس سے ماہانہ پچاس ہزار سے ایک لاکھ روپے تک کما سکتے ہیں۔ جس کے لیے پورا مہینہ کام کرنے کی ضرورت نہیں، بلکہ پانچ چھ دن میں content management tools کی مدد سے کلائنٹس کے مواد کو شیڈول کریں اور اپنی آمدنی بڑھائیں-

آن لائن شہرت کا جنون اکثر زندگی کے اہم پہلوؤں کو نظرانداز کر دیتا ہے، جیسے کہ تعلیم کی اہمیت، کیریئر پلاننگ، خاندانی زندگی، اور ذاتی مواد سے وابستہ ممکنہ خطرات۔ دوسری طرف، متعدد طلباء شارٹ کٹ کی تلاش میں تعلیم چھوڑ کر فری لانسنگ کے نام پر مختلف آن لائن غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہو رہے ہیں۔ حقیقی زندگی کے تجربات اور ذاتی ترقی کے ساتھ ڈیجیٹل دنیا کا توازن ضروری ہے، اس لیے تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو اس مسئلے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے-

سوشل میڈیا کے غلط استعمال کے باعث متعدد نوجوان ذہنی دباؤ، بے چینی، اور ڈپریشن جیسی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں، یہاں تک کہ خودکشی کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، نوجوانوں میں چوری، دھوکہ دہی، منشیات کا استعمال، اور بلیک میلنگ جیسی غیر قانونی سرگرمیاں بھی بڑھتی جا رہی ہیں- بدقسمتی سے، کئی نوجوان لائکس، شیئرز، اور کمنٹس حاصل کرنے کی کوشش میں مذہبی، سماجی اور اخلاقی حدود کو عبور کر چکے ہیں۔ یہ لوگ جعلی اور غیراخلاقی مواد، افواہیں، جھوٹا کریڈٹ، اور شناخت کی چوری کا سہارا لیتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے قانونی طور پر پیسے کمانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کی تحقیق کے مطابق، سوشل نیٹ ورکنگ کرتے وقت دماغ کا ایک حصہ nucleus accumbens متحرک ہوتا ہے، جو نشہ آور ادویات (جیسے کوکین) کے استعمال کے دوران بھی متحرک ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا بھی ایک نشہ کی طرح ہے، جو صارفین کو اپنی گرفت میں لے کر ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو کمزور کر دیتا ہے اور انہیں خیالی دنیا میں مگن کر دیتا ہے- ایسے میں خود پسندی اور ریاکاری کا شکار انسان ہزاروں فلوورزکے ہوتے ہوے بھی تنہائی محسوس کررہا ہوتا ہے۔

آجکل سوشل میڈیا پر جس طرز زندگی کی تشہیر کی جاتی ہے وہ حقیقت کے برعکس ہے۔ ہر کوئی اپنی زندگی کے صرف دلکش پہلوؤں کو شیئر کرتے ہے، جیسے دوستوں کے ساتھ تفریح، سفر، نئی خریداری، یا باہر کھانے سے متعلق مواد۔ اس کے برعکس، گھر بیٹھے کام میں مصروف لوگ اپنے جاننے والوں کے ایسے دلکش اسٹیٹس، ویڈیوز، اور تصاویر دیکھ کر مایوس ہوجاتے ہیں کہ وہ اس طرح کی تفریح کیوں نہیں کر سکتے۔ اس طرح اکثرلوگ ذہنی دباؤ میں مبتلا ہو جاتے ہیں جس سے نکلنا مشکل ہوتا ہے۔ ایسے میں صارفین کو چاہیے کہ وہ دوسروں کے عارضی دلکش مناظر کو اپنے ذہن پر سوار نہ ہونے دیں-

سوشل میڈیا پر ذاتی تصاویر اور ویڈیوز پبلک کرنے سے پہلے ایک بار ضرور سوچیں کہ آپ کا یہ مواد بلیک میلرز کے ہاتھ لگ کر AI کے ذریعے ناقابل یقین انداز میں ایڈٹ ہو سکتا ہے اور آپکا یا آپ کے خاندان کے خلاف استعمال ہو سکتا ہے۔ اس لیے سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوے اپنی پرائیویسی اور سیکیورٹی کا خاص خیال رکھیں اور خود کو محفوظ رکھیں۔

ہمارے نوجوانوں کو سوشل میڈیا پر وقت ضائع کرنے کے بجائے، تعلیم اور جدید دور کے مطابق مصنوعی ذہانت، مشین لرننگ، آئی او ٹی، کلاؤڈ کمپیوٹنگ، بلاکچین، ویب اور موبائل ایپلیکیشن جیسے ہنر سیکھنے پر توجہ دینی چاہیے۔ یہ سکلز نہ صرف موجودہ بلکہ مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوں گی۔

سوشل میڈیا کی شہرت کا حصول تعلیم، کیریئر، اور اخلاقی معیار کی قیمت پر نہیں ہونی چاہیے۔ ان بنیادی پہلوؤں پر توجہ دے کر، نوجوان نسل مستحکم اور تعمیری مواد تخلیق کرکے ایک متوازن اور صحت مند معاشرے کیلئے کردار ادا کر سکیں گے۔ یاد رکھیں کہ پائیدار کامیابی شارٹ کٹ سے نہیں بلکہ سخت محنت، لگن، اور علم و ہنر کے مسلسل حصول سے ملتی ہے –

Back to top button

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker