اسلام آباد(آئی پی ایس)سال نو کی پہلی قومی انسداد پولیو مہم کا آغاز ہوگیا۔ مہم کے دوران ساڑھے چار کروڑ سے زائد بچوں کو پولیو سے بچاو کے قطرے پلائے جائیں گے۔
قومی انسداد پولیو مہم دو مرحلوں میں مکمل کی جائے گی۔ اسلام آباد میں انسداد پولیو مہم کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ آئندہ سات روز تک جاری رہنے والی پولیو مہم میں 4 لاکھ 21 ہزار بچوں کو قطرے پلائیں جائیں گے۔
ڈی سی اسلام آباد کے مطابق پولیو ٹیموں کے ساتھ مہم کے آغاز سے قبل متعلقہ اسسٹنٹ کمشنرز کی جانب سے اسمبلی سیشنز کا انعقاد کیا گیا تھا۔ پہلا ملک گیر مرحلہ 8 جنوری سے 14جنوری جبکہ دوسرا مرحلہ 15سے 19 جنوری تک لکی مروت، جنوبی وزیرستان میں جاری رہے گا۔
ترجمان وزارت صحت کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق کراچی سمیت سندھ بھر میں پولیو مہم کے دوران 1 کروڑ 31لاکھ سے زائد بچوں کو ہدف بنایا جائے گا۔ پنجاب میں 2کروڑ 30لاکھ سے زائد بچوں کو پولیو سے بچاو کے قطرے پلائے جائیں گے۔ بلوچستان کے مختلف اضلاع میں 26لاکھ 10ہزاربچوں کی پولیو ویکسی نیشن ہوگی۔ اسلام آباد، آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں 14 لاکھ سے زائد بچوں کو پولیو کے قطرے دیئے جائیں گے۔ مہم کیلئے تربیت یافتہ پولیو ورکرز کی ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں جو گھر گھر جاکربچوں کو پولیو سے بچاو کے قطرے پلائیں گی۔
نگران وزیر صحت سندھ ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے سندھ میں سال 2024 کی پہلی انسداد پولیو مہم کا افتتاح کردیا۔ انہوں نے اربن ہیلتھ سنٹر لانڈھی میں بچوں کو پولیو ویکسین کے قطرے پلا کر افتتاح کیا۔انہوں نے بتایا کہ سندھ میں انسداد پولیو مہم 8 تا 14 جنوری تک جاری رہے گی۔ مہم میں سندھ کے تمام 30 اضلاع میں 5 سال سے کم عمر 1 کروڑ سے زائد بچوں کو پولیو وائرس سے بچاو کے قطرے پلائے جائیں گے۔
مہم کے دوران صوبے بھر میں تقریبا 37،000 ویکسینیشن ٹیمیں اپنے فرائض انجام دیں گی۔ پولیو ٹیمز کی حفاظت پر 4،225 سیکورٹی اہلکار مامور ہوں گے۔ان کا کہنا تھا کہ سندھ کے 28 مقامات سے حاصل کردہ ماحولیاتی نمونوں میں سے 12 میں پولیو وائرس پایا گیا ہے۔ اسی وجہ سے گزشتہ سال یوسی گجرو ضلع شرقی کے دو بچے پولیو وائرس سے متاثر ہوئے ہیں۔ مکمل دلچسپی اور اجتماعی و انفرادی کوشش کی بدولت دو ممالک کے علاوہ پوری دنیا سے پولیو کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ جن دو ممالک میں پولیو کا مرض آج بھی موجود ہے
ان میں افغانستان کے ساتھ پاکستان بھی شامل ہے۔ پاکستان کے کسی بھی حصے میں پولیو وائرس کا پایا جانا انتہائی افسوسناک ہے۔این ای او سی کے مطابق اب تک پائے گئے تمام ماحولیاتی نمونوں کے نتائج کا تعلق براہ راست افغانستان سے ہے۔ میری رائے میں وفاقی سطح پر اس حوالے سے مربوط و جامع حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ ہمارا عزم ہے کہ صوبہ سندھ سے اس مہلک مرض کا خاتمہ کیا جائے۔ حکومت کی انفرادی کوشش میں والدین، اساتذہ سمیت ہر فرد کو اجتماعی کردار ادا کرنا ہوگا۔