اہم خبریں

زیرالتوا مقدمات کی تعداد 57 ہزار تک پہنچ چُکی ہے، ہمارا وقت بہت قیمتی ہے: چیف جسٹس

اسلام آباد(آئی پی ایس)چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ معذرت چاھتا ہوں کہ سماعت شروع ہونے میں تاخیر ہوئی، تاخیر کی یہ وجہ تھی کہ سماعت کو لائیو دکھایا جاسکے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’ کیا اس کیس میں 9 درخواستیں ہیں اور اس کیس میں دلائل کون کون دیگا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس کیس کو حل کرنے کے بہتر حل یہ تھا کہ اس پر فل کورٹ بنایا جائے۔ فل کورٹ کے لیے 3 درخواستیں بھی آئی تھیں۔ فل کورٹ کی تشکیل کے لیے پاکستان بار کونسل کی جانب سے اور 2 دیگر کی جانب سے دائر کی گئی درخواستوں کو منظور کیا جاتا ہے۔
وکیل خواجہ طارق رحیم نے کہا ہے ہم عدالت کے ساتھ ہیں۔ اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ خواجہ صاحب آپ کونسی درخواست میں وکیل ہیں۔ خواجہ طارق رحیم نے بتایا کہ’ میں درخواست گزار راجا عامر کی جانب سے وکیل ہوں۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا اس قانون میں اپیل کا حق دیا گیا ہے اس پر آپ کیا دلائل دیں گے۔ وکیل خواجہ طارق رحیم نے جواب دیا کہ ’مجھے اتنا علم ہے کہ مجھے اپیل کا حق نہیں‘۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اس میں دیگر رولز ہیں ان کا کیا ہوگا؟ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ فل کورٹ اگر یہ کیس سنے گی تو اسی ایکٹ کی سیکشن 5 کا کیا ہوگا، کیا سیکشن 5 میں جو اپیل کا حق دیا گیا ہے اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ صاحب آپ جیسے دلائل دینا چاہتے ہیں ویسے دیں اپنی مرضی سے دلائل دیں اور بنیچ ممبر نے جو سوال کیا اس کا بھی جواب دیں۔ اپنی درخواست پر فوکس کریں، ہمیں ہزاروں کیس نمٹانے ہیں۔
وکیل درخواست گزار خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ سپریم کورٹ نے فل کورٹ کے ذریعے اپنے رولز بنا رکھے تھے، پارلیمینٹ نے سپریم کورٹ کے رولز میں مداخلت کی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے خواجہ طارق رحیم سے پوچھا ’خواجہ صاحب جو کچھ ماضی میں ہوتا رہا آپ اس کو سپورٹ کرتے ہیں‘۔ چیف جسٹس نے کہا خواجہ صاحب اپنے کسی معاون کو کہیں کہ سوالات نوٹ کریں، آپ کو فوری طور پر جواب دینے کی ضرورت نہیں، اپنے دلائل کے آخر میں سب سوالات کے جواب دے دیں۔ آپ بتائیں کہ پورا قانون ہی غلط تھا یا چند شقیں؟
خواجہ صاحب کیا آپ کو قبول ہے کہ ایک بندہ بینچ بنائے، جسٹس اطہر من اللہ
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ ’بینچ کی تشکیل سے متعلق کمیٹی بنانے کا قانون کیا جوڈیشل پاور دے رہا ہے یا انتظامی پاور؟ کیا پارلیمان انتظامی اختیارات سے متعلق قانون بنا سکتی ہے؟ کیا پارلیمان نئے انتظامی اختیارات دیکر سپریم کورٹ کی جوڈیشل پاور کو پس پشت ڈال سکتی ہے؟
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ خواجہ صاحب کیا آپ کو قبول ہے کہ ایک بندہ بینچ بنائے؟ پارلیمان نے اسی چیز کو ایڈریس کرنے کی کوشش کی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے مؤکل کی ذاتی دل چسپی تھی یا عوامی مفاد میں درخواست لائے ہیں؟ اس پر خواجہ طارق رحیم نے جواب دیا کہ ’درخواست عوامی مفاد میں لائی گئی ہے‘۔
کیا عدلیہ کی اندرونی آزادی کا معاملہ پارلیمینٹ کے ہاتھ میں دیا جا سکتا ہے؟ جسٹس منیب اختر
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں اپنے ساتھیوں سے بھی درخواست کروں گا بشمول میرے ہم سب آپ کے لیے مشکل بنا رہے ہیں، آپ سیکشن 5 کو آئین سمجھتے ہیں یا غیر آئینی؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ’میں سوال آسان بنا دیتا ہوں، آپ اپنے مؤکل کے لیے اپیل کا حق چاہتے ہیں یا نہیں؟
خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ ایک اچھی چیز اگر غیر آئینی طریقے سے دی گئی تو وہ غلط ہے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ ’سیکشن 5 آئینی ہے یا غیر آئینی؟ ‘۔ خواجہ طارق رحیم نے جواب دیا کہ یہ غیر آئینی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا آپ چائیں تو ہمیں سوالات کے تحریری جوابات دے سکتے ہیں۔
خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی کا اختیار آئین سے مشروط ہے۔ رولز بنانے اور پریکٹس اینڈ پروسیجر کا اختیار سپریم کورٹ کو دیا گیا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا آئین کے ساتھ قانون کا بھی کہا گیا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ خواجہ صاحب آپ کیا کہہ رہے ہیں یہ قانون بنانا پارليمان کا دائرہ کار نہیں تھا یا اختیار نہیں تھا۔
چیف جسٹس نے خواجہ طارق رحیم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا ’خواجہ صاحب آپ جو باتیں کر رہے اس پر الگ درخواست لے آئیں ابھی اپنی موجودہ درخواست پر فوکس کریں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدلیہ کی بیرونی عناصر سے آزادی اہم ہے تو اندرونی آزادی بھی اہم ہے۔ پارلمینٹ نے اس قانون سے اندرونی آزادی کو فوکس کیا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا عدلیہ کی اندرونی آزادی کا معاملہ پارلیمینٹ کے ہاتھ میں دیا جا سکتا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کے لیے احترام ہے مگر کیا یہ کوئی حل ہے؟ خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ سپریم کورٹ کے اندرونی معاملات میں کسی اور کی مداخلت ہو گی تو یہ سپریم کورٹ نہیں رہے گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ صاحب آپ ہر سوال کا جواب دینے لگ جاتے ہیں، آپ سوالات نوٹ کریں پھر جواب دیں۔ ہم یہاں آپس میں بحث کرنے نہیں بیٹھے کئی قوانین مجھے بھی پسند نہیں مگر میں نے حلف اُٹھایا ہے۔ حلف کے تحت آئین اور قانون کے مطابق کام کروں گا ہم نے اس کیس میں سوموٹو نوٹس نہیں لیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم پر اتنا بڑا حملہ ہوتا تو ہم کئی معاملات پر سوموٹو لے چُکے ہوتے۔ آپ بار بار ذاتی رائے دیتے ہیں اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ آپ آرٹیکل 184/3 پر بات کریں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہمارے سوالوں کے جوابات بعد میں تحریری طور پر عدالت میں جمع کروا دیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا آپ پارلیمنٹ کا دائرہ اختیار محدود کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کیا کیا نہیں کر سکتی؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا پارلمینٹ قانون سازی سے سپریم کورٹ کے رولز میں ترامیم کر سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ رولز کو چھوڑیں آئین کی بات کریں کیا آپ چیف جسٹس کو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں بنانا چاہتے؟ ہم اس قانون سے بھی پہلے اوپر والے کو جواب دہ ہیں مجھے بطور چیف جسٹس آپ زیادہ مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ میں پھر آپ کی درخواست 10 سال نہ لگاؤں تو آپ کیا کریں گے۔ آپ کا آئین سپریم کورٹ سے نہیں اللہ کے نام سے شروع ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ریکوڈک کیس میں ملک کو 615 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، ایسے اختیارات آپ مجھے دینا بھی چاہیں تو نہیں لوں گا۔ چیف جسٹس نے خواجہ طارق رحیم سے کہا کہ آپ ابھی جواب نہیں دینا چاہتے تو ہم اگلے وکیل کو سن لیتے ہیں۔ درخواست گزار کے وکیل خواجہ طارق رحیم کے دلائل مکمل ہو گئے۔
پارلیمنٹ نے صرف یہ کیا کہ چیف جسٹس کا اختیار 2 سینئر ججز کے ساتھ بانٹ دیا، جسٹس اطہر من اللہ
دوسرے درخواست گزار کے وکیل امتیاز صدیقی کے دلائل شروع کیے تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ قانون دنیا کا بدترین قانون بھی ہو سکتا ہے مگر آرٹیکل 184/3 کے تحت دیکھیں گے۔آرٹیکل 184/3 تو عوامی مفاد کی بات کرتا ہے آپ بتائیں اس آرٹیکل کے تحت یہ درخواست کیسے بنتی ہے؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پارلیمنٹ نے صرف یہ کیا کہ چیف جسٹس کا اختیار 2 سینئر ججز کے ساتھ بانٹ دیا، اس بات سے کون سا بنیادی حق متاثر ہوتا ہے۔ پارلمینٹ کا یہ اقدام تو عدلیہ کی آزادی کو مضبوط بنائے گا۔ باہر سے تو کوئی نہیں آیا چیف جسٹس نے تو 2 سینئر ججز سے ہی مشاورت کرنی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ چیف جسٹس کے اختیار کو چھیڑنے سے عدلیہ کی آزادی خطرے میں پڑنے والی کوئی بات نہیں۔ آئین اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ ایک قانون پریکٹس اینڈ پروسجیر کے لیے ہو سکتا ہے۔ وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ یہ قانون پارلیمنٹ سے نہیں ہو سکتا فل کورٹ کر سکتا ہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ قانون پارلمینٹ سے ہی آتا ہے اور کہاں سے آنا ہے۔ ہم سوئے رہیں ارجنٹ کیس بھی مقرر ہی نہ کریں تو وہ ٹھیک ہے۔ عوام پارلمینٹ کے ذریعے ہمیں کہیں کہ وہ کیس 14 دن میں مقرر کریں تو کیا وہ غلط ہو گا؟ امتیاز صدیقی نے کہا کہ مجھے سانس لینے کی مہلت دیں سب سوالات کے جوابات دوں گا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ صدیقی صاحب آپ سوالات لکھ کہاں رہے ہیں ہم بولی جا رہے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ صدیقی صاحب آپ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ماضی میں جو ہوا اصلاحات ضروری تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے حلف اُٹھایا ہے کہ آئین اور قانون کے تابع ہوں میں نے یہ حلف نہیں اٹھایا کہ میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کے تابع ہوں۔ یہاں کئی مارشل لاء بھی لگے ہیں میں ان فیصلوں کا تابع نہیں۔ میرے سامنے وہ فیصلے پڑیں گے تو روک دوں گا۔ میرے سامنے آئین سے پڑھ کر بتائیں کہ کیا غلط ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ یہ جانتے ہیں کہ یہ قانون بہت اچھا ہے مگر پارلمینٹ یہ نہیں بنا سکتی؟ امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ ’جی میں یہی کہہ رہا ہوں‘۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آئین تو سپریم کورٹ کی بات کرتا ہے آپ چیف جسٹس کے اختیار پر بات کر رہے ہیں۔ جسٹس فائز نے کہا کہ میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں میں نے آپ کو اپنا وکیل نہیں کیا۔ چیف جسٹس کے ریمارکس پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے۔
زیرالتوا مقدمات کی تعداد 57 ہزار تک پہنچ چُکی ہے، ہمارا وقت بہت قیمتی ہے: چیف جسٹس
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ بتائیں بنیادی انسانی حقوق کیسے متاثر ہوئے؟ اس پر امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ خلاف آئین قانون سازی سے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پھر آپ بتا دیں کون سا بنیادی حق متاثر ہوا ہے، زیرالتوا مقدمات کی تعداد 57 ہزار تک پہنچ چُکی ہے، ہمارا وقت بہت قیمتی ہے۔ امتیاز صدیقی صاحب میں ابھی تک آپ کے خوبصورت دلائل نہیں سن پا رہا۔ سوالات نوٹ کریں اور جوابات دیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدلیہ کی بیرونی ہی نہیں اندرونی آزادی بھی اہم ہے اگر قانون میں اپیل کا حق دیا جا رہا تو وہ بہت اچھی بات ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ باہر کی دنیا میں بھی بنیچ چیف جسٹس نہیں بناتا، نیپال جیسے ملک میں بھی کلینڈر سال شروع ہونے سے پہلے فل کورٹ بیٹھتی ہے۔ بیلٹ کے ذریعے وہاں بنیچوں کی تشکیل کا معاملہ طے پاتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ امتیاز صاحب مجھے لگتا ہے آپ اپنی درخواست پر دلائل دینا ہی نہیں چاہتے، آپ جج نہیں آپ دلائل دیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پارلمینٹ کے پاس اختیار ہے کہ وہ ہمارے فیصلوں کو غیر مؤثر بنا دے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی زیر صدارت فل کورٹ اجلاس جاری ہے
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی زیر صدارت فل کورٹ اجلاس جاری ہے۔ سپریم کورٹ کی آج کی کارروائی براہ راست دکھانے سے متعلق مشاورت کی جا رہی ہے۔ سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کو جلد نمٹانے اور بنچز کی تشکیل کا معاملہ بھی زیر بحث ہے۔

پروٹوکول اور گارڈ آف آنر لینے سے انکار
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی بغیر پروٹوکول کے سپریم کورٹ پہنچے تو انہوں نے گارڈ آف آنر لینے سے انکار کر دیا۔ چیف جسٹس نے فل کورٹ میٹنگ طلب کرلی۔ وہ فل کورٹ میٹنگ کی سربراہی کریں گے۔ ججز فل کورٹ میٹنگ کے بعد فل کورٹ بینچ، پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی سماعت کرے گی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی بغیر پروٹوکول کے سپریم کورٹ پہنچے تو عدالت عظمیٰ کے اسٹاف نے ان کا بھرپور استقبال کیا اور رجسٹرار سپریم کورٹ نے انہیں گلدستہ پیش کیا۔

پولیس نے چیف جسٹس کو پہلے دن سپریم کورٹ آمد پر گارڈ آف آنر پیش کرنا تھا لیکن چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے گارڈ آف آنر لینے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے عدالت عظمیٰ کے اسٹاف سے گفتگو میں کہا کہ عدالت میں لوگ خوشی سے نہیں آتے مسائل ختم کروانے کے لیے آتے ہیں، سائلین سے ایسا سلوک کیجیے جیسے میزبان مہمان سے کرتا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسی کا کہنا تھا کہ آپ لوگوں کا شکریہ، آپ کا بہت سا تعاون چاہیے۔ آج میٹنگز اور فل کورٹ ہے، آپ لوگوں سے تفصیلی ملاقات ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ انصاف کے دروازے کھلے اور ہموار رکھیں، آنے والے لوگوں کی مدد کریں۔

صحافی عامر سعید عباسی نے اپنی ایکس پوسٹ میں بتایا ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے بلٹ پروف بی ایم ڈبلیو گاڑی لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ 1300 سی سی کار استعمال کریں گے جبکہ سیکیورٹی بھی ضروری اور مختصر ہوگی۔

 

فل کورٹ آج ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023‘ کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کرے گا
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے گزشتہ روز تشکیل کردہ فل کورٹ بینچ آج ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023‘ کے خلاف دائر 9 درخواستوں پر سماعت کرے گا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے گزشتہ روز عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد ’پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ‘ کے خلاف دائر درخواستوں کی آج ہونے والی سماعت کے لیے سپریم کورٹ کے تمام 15 ججز پر مشتمل فل کورٹ بینچ تشکیل دے دیا تھا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ بینچ جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل ہے، امکان ہے کہ عدالتی کارروائی براہ راست نشر کی جائے گی۔

پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس، کب کیا ہوا؟
سپریم کورٹ(پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کا نفاذ سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ نے 13 اپریل کو معطل کر دیا تھا۔

سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ عدالت عظمیٰ، پارلیمنٹ کا بہت احترام کرتی ہے لیکن اس نے اس بات کا جائزہ بھی لینا ہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کے نفاذ میں آئین سے انحراف، آئین کی خلاف ورزی یا آئین سے ماورا کوئی شق تو شامل نہیں کی گئی۔

درخواست گزاروں نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی تھی کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کا تصور، تیاری، توثیق اور اسے منظور کیا جانا بددیانتی پر مبنی ہے، لہٰذا اسے خلاف آئین قرار دے کر کالعدم کیا جائے۔

جسٹس سید منصور علی شاہ نے نیب ترمیمی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس سے درخواست کی تھی کہ وہ نیب ترمیمی کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دینے پر غور کریں یا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کی قانونی حیثیت کا فیصلہ ہونے تک انتظار کریں۔

اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان کو آج 18 ستمبر کو ہونے والی سماعت کے لیے نوٹس پہلے ہی جاری کیے جا چکے ہیں۔

کیس کا پس منظر
10 اپریل 2023 کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی طرف سے پیش کیا گیا سپریم کورٹ پریکٹس اور پروسیجر بل متفہ رائے سے منظور کیا گیا تھا۔

12 اپریل کو وفاق کی جانب سے چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات سے متعلق منظورہ کردہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا گیا تھا۔

اسی روز سپریم کورٹ میں ایکٹ کی منظوری کیخلاف 4 درخواستیں دائر کی گئیں، 2 وکلا جبکہ 2 شہریوں کی جانب سے دائر کی گئی تھیں، جنہیں 13 اپریل کو سماعت کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔ سابق چیف جسٹس نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023‘ پر تاحکم ثانی عملدرآمد روک دیا تھا۔

21 اپریل 2023 کو سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 پارلیمنٹ کے بعد صدر سے دوبارہ منظوری کی آئینی مدت گزرنے پر از خود منظور ہوکر قانون کی شکل اختیار کر چکا ہے۔

قومی اسمبلی سیکریٹریٹ سے جاری بیان کے مطابق مجلس شوریٰ (پارلیمان) کا سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 دستور پاکستان کی دفعہ 75 کی شق 2 کے تحت صدر سے منظور شدہ سمجھا جائے گا۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر 2023 بل کیا ہے؟
پارلیمان سے منظور کیے گئے اس قانون میں کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ کے سامنے کسی وجہ، معاملہ یا اپیل کو چیف جسٹس اور 2 سینئر ترین ججز پر مشتمل ایک کمیٹی کے ذریعے تشکیل دیا گیا بینچ سنے گا اور اسے نمٹائے گا، کمیٹی کے فیصلے اکثریت سے کیے جائیں گے۔

عدالت عظمیٰ کے اصل دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کے حوالے سے قانون میں کہا گیا کہ آرٹیکل 184 (3) کے استعمال کا کوئی بھی معاملہ پہلے مذکورہ کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا۔

اگر کمیٹی یہ مانتی ہے کہ آئین کے حصہ II کے باب اول میں درج کسی بھی بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کا سوال پٹیشن کا حصہ ہے تو وہ ایک بینچ تشکیل دے گی، جس میں کم از کم 3 ججز شامل ہوں گے، سپریم کورٹ آف پاکستان جس میں اس معاملے کے فیصلے کے لیے کمیٹی کے ارکان بھی شامل ہو سکتے ہیں۔

آرٹیکل 184(3) کے دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے بینچ کے کسی بھی فیصلے پر اپیل کے حق کے بارے میں بل میں کہا گیا کہ بینچ کے حکم کے 30 دن کے اندر اپیل سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے پاس جائے گی، اپیل کو 14 دن سے کم مدت کے اندر سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔

بل میں قانون کے دیگر پہلوؤں میں بھی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں، اس میں کہا گیا کہ ایک پارٹی کو آئین کے آرٹیکل 188 کے تحت نظرثانی کی درخواست داخل کرنے کے لیے اپنی پسند کا وکیل مقرر کرنے کا حق ہوگا۔ کسی وجہ، اپیل یا معاملے میں جلد سماعت یا عبوری ریلیف کے لیے دائر کی گئی درخواست 14 دنوں کے اندر سماعت کے لیے مقرر کی جائے گی۔

 

Back to top button

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker