کراچی (آئی پی ایس)سربراہ ایم کیو ایم پاکستان خالد مقبول صدیقی نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بجلی کے بلوں پر احتجاج فسادات میں تبدیل نہ ہو جائیں، حکومت کو چاہیے کہ عوام کو فوری ریلیف دینے کیلئے اقدامات کرے۔
کراچی میں پارٹی رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کنوینر ایم کیو ایم پاکستان خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا ہم نے مذاکرات کا وعدہ کیا تھا اور اس پر عمل کرتے رہیں گے، سرکلر ڈیٹ کا دباؤ کے الیکٹرک کے مالکان پر نہیں صارفین پر آ رہا ہے، عوام کیلئے فوری ریلیف کے اقدامات کرنا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔
خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا حیدرآباد میں 12 سے 14 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے، اتنی لوڈشیڈنگ کے باوجود بل وہی آ رہا ہے جس کی وجہ سے تاجر احتجاج پر مجبور ہو رہے ہیں، ہم نے پہلے بھی ایوانوں میں بات کی ہے اب بھی بات کریں گے۔
خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا گردشی قرضے حکومت کی نااہلی اور ناکامی کی وجہ سے ہیں، گردشی قرض وفاق اور صوبوں کے درمیان چپقلش کا نتیجہ ہے، ملک میں معاشی بحران سے زیادہ نیت کا بحران ہے اور کراچی میں جرائم جس طرح بڑھ رہے ہیں وہ سنگین خطرہ ہے۔
سربراہ ایم کیو ایم پاکستان کا کہنا تھا ایم کیو ایم فوری انتخابات کی خواہش مند ہے، پچھلے انتخابات میں حقیقی کے بجائے جعلی نمائندگی مسلط کی گئی، جس طرح ہمارا حق نمائندگی چھینا گیا کسی کا نہیں چھینا گیا، سب سے جلدی انتخابات کی ضرورت اس شہر کو ہے لیکن انتخابات صاف شفاف، غیرجانبدار اور سب کیلئے قابل قبول ہونے چاہئیں۔
خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا یہ کون سے لوگ ہیں جو نئی حلقہ بندیوں کی بجائے پرانی حلقہ بندیوں پر زور دے رہے ہیں، نئی مردم شماری کے بعد کئی کروڑ ووٹرز شامل ہوئے ہیں، کوئی آئین اجازت نہیں دیتا کہ نئی مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں نہ ہوں، اگر حلقہ بندیوں کیلئے ہفتوں اور مہینوں کا وقت لگ رہا ہے تو یہ خسارے کا سودا نہیں، الیکشن کمیشن کو مضبوط کریں اور غیر جانبدار کریں۔
کنو نیئر ایم کیو ایم پاکستان نے کہا کہ ہمارے پاس تو اعتراض کا حق نہیں تھا، پیپلزپارٹی سی سی آئی میں اعتراض کر سکتی تھی، ایسا کیا 10 سے 15 دن میں ہوا جو پیپلزپارٹی نے اتنا بڑا یوٹرن لیا ہے، جو جو لوگ جمہوریت کے خلاف ہیں ان کو پریشان کریں گے ان کے کانپنے کے دن آئے ہیں، نئی مردم شماری ہوئی سب نے قبول کرلی تو پرانی حلقہ بندیاں ختم ہو گئیں۔
فاروق ستار کا کہنا تھا بجلی کے بلوں میں اضافہ عوام کی پہنچ سے نکل گیا ہے، ملک تیزی سے افراتفری کی جانب جا رہا ہے، 2000 کے بجلی بل میں 48 فیصد ٹیکس ہے، دنیا میں بجلی استعمال کرنے پر ٹیکس نہیں ہوتا لیکن ہم بجلی کے بل پر 13 قسم کے ٹیکسز دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا لوگوں میں بغاوت کا رجحان آ رہا ہے، لوگ باغی ہوتے جا رہے ہیں، ملک سول نافرمانی کی جانب جا رہا ہے، اگر یہی رجحان رہا تو اسٹیٹ کے اندر اسٹیٹ بنے گی۔
انہوں نے کہا کہ ملک کے تاجروں کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں، اب جہاں جہاں احتجاج ہور ہا ہے ہمیں بھی کھڑا ہونا پڑے گا، ہم بھی کمر بستہ ہو رہے ہیں، رابطہ کمیٹی فیصلہ کر رہی ہے، کراچی کے مسائل کو کوئی ایک جماعت حل نہیں کر سکتی۔