پاکستان

نوجوانوں کو مقاصد کے تعین کی شدید ضرورت ہے:ڈاکٹر راجہ سعادت

انٹرویو: (آفتاب بھٹی / فوٹو/ حسنین نذیر)پوری دنیا میں مسلم امہ کی حالت زار،انسانی حقوق ،حقیقی آزادی ،اقلیتوں کے حقوق ،نوجوانوں کاکردار اور پاکستان میں بنیادی انسانی حقوق کے بارے میں فور موسٹ گروپ کے سی ای او ڈاکٹر راجہ سعادت کی روز نامہ سب نیوز سے خصوصی گفتگو۔ دوران گفتگو ان کا کہنا تھا یہ ایسے ہی ہے ۔جس طرح کچھ لوگ ساحل سمندر پہ لیٹنے ،کشی چلانے ،مچھلیاں پکڑنے تو کچھ لوگ سمندر میں چھپے خزانوں کی کھوج میں جاتے ہیں ۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جس کو ہم امت مسلمہ کہہ رہے ہیں۔ یہ ایک لفظ ہے جس کو میں سمجھتا ہوں کہ ہماری لغت میں درست کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلمان وہ نہیں جو منہ سے صرف کلمہ پڑھتا ہے۔مسلمان وہ ہے جو مطیع اور پیدا کرنے والے کے احکامات اور جس کا ہر پل قران و سنت کی بتائی ہوئی تعلیمات اور اس سے سیکھ کے جب وہ اپنی زندگی کو گزارے گا اور ایک دیکھتے سنتے رب کی شرم سے اپنے پیدا کرنے والے کے حکم کی بجا آوری میں عمل کرے گا تب وہ مسلمان کہلانے کا حق دار ہو گا ۔ آپ نے امت مسلمہ کی بات کی سب سے پہلے تو ان امتیوں کو جو مکمل مسلمان ہیں اکھٹے ہونے کی ضرورت ہے ۔
ضروری نہیں دنیا میں جتنے بھی اسلامی ممالک ہیں ان کو آپ مسلم امہ کہیں ۔
نماز کے دوران منہ تو خدا کے گھرکی طرف ہوتا ہیاور روز گار کی تلاش میں ہاتھ (یو این او ) کی طرف۔ تو یہ دونوں باتیں جدا ہیں ۔امت مسلمہ کھبی بھی اپنے خدا کے علاوہ کسی اور کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتی ۔
امت مسلمہ ہمیشہ رہبر اور رہنما خداوند کریم نے قران میں ارشاد فرمایا ۔کہ یہ عین وسط کے لوگ ہوں گے ۔وسط کا مطلب مساوات ،عدل کا راستہ عین بیچ کا رااستہ ہوتا ہے ۔
آج پوری مسلم امہ اللہ اور اس کے احکامات سے دور ہو کر ایک ایسی جنگ کا حصہ بن چکی ہے ۔جسے سود کہا جاتا ہے ۔سود صرف پیسے پہ نہیں ہوتا ۔اللہ اور اس کے رسول کی تعلیمات اور احکامات کو نہ ماننا جو صرف انسان کی بہتری اور فلاح کیلئیے رکھا ہے ۔اس راستے کو چھوڑ کر ایک ایسے راستے کا مسافر بننا کہ جس میں صرف گمان ،دھوکہ، فریب اور ظلم ہے ۔
ان راستوں کے مسافر جو بنتے ہیں وہ مسلمان نہیں ہوتے ۔جو مسلمان ہوتے ہیں وہ عزم ،نیت اور اعلی اخلاق کے مالک اپنے رب کے امین ہوتے ہیں ۔ جو قوم قران کو جھوٹی گواہیوں میں استعمال کرے اور اس کا رہنما آیات کو سستے داموں بیچے تو پھر امت مسلمہ کا یہی حال ہو گا ۔ اگر آج کینوجوان کی بات کریں تو بھی لغت کو درست کرنے کی ضرورت ہے ۔جو زندہ ہیں وہ جوان ہیں ۔نوجوان کا تعلق عمر سے نہیں ہوتا بلکہ جو نوجوان ہوتا ہے وہ اپنا راستہ خود بنا لیتا ہے ۔جنون ،ایمان، اور یقین کی ہم آہنگی کو نوجوان کہتے ہیں ۔
نوجوان کاتعلق عمر سے نہیں۔ فرض کریں ایک نوجوان جس کی عمر پچیس سال ہے ۔ مایوسی کے اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے اس کو آپ نوجوان نہیں بلکہ اس کو مردہ ، نا امید اور کافر کہ سکتے ہیں ۔قران میں ارشاد باری تعالی ہے کہ نہیں مایوس ہوتے اللہ کی رحمت سے مگر کافر جو مایوس ہے نوجوان نہیں جو یقین کے ساتھ ہے وہ نوجوان ہے ۔ اگر خدا چاہتا تو کوئی اور مخلوق بھی بنا سکتا تھا ۔ مگر انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر اس خطہ زمین پر بیجھا۔ جہاں بہترین موسم ،پھل، اجناس ، سمندر ، دریا ،زمین ، پہاڑ گویا اس خطے میں خدا کی تمام نعمتیں موجود ہیں ۔ سب سے بڑھ کر نوجوان نسل بھی ہمارے پاس موجود ہے جو تقریبا ساٹھ فیصد ہے ۔ نوجوانوں کو ملک میں ایک ہونے کی ضرورت ہے ۔
ایک ہونے کے لیئے ضروری نہیں کہ کسی سیاسی یا مذہبی جماعت میں شمولیت کی جائے ۔ضروت ہے تو اس عزم کی کہ میں اس دنیا میں کس مقصد کے لیئے آیا ہوں ۔ جب قوم کا مقصد ایک ہو جاتا ہے تو خواب کی تعبیر بن جاتا ہے ۔ کیونکہ خواب جو اکیلے میں دیکھا جائے خواب نہیں ہوتا ۔خواب وہ ہوتے ہیں جو کھلی آنکھ سے دیکھے جاتے ہیں ۔ جب تک نوجوانوں اور قوم کی منزل ایک نہیں ہو جاتی تب تک ہم قوم نہیں ایک ہجوم ہی رہیں گے ۔ انہوں نے مزید گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم تمام نوجوانوں کو اکھٹا کریں گے ۔ فور موسٹ گروپ اسی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لیئے کوشاں ہے ۔ ہمارا کام نوجوانوں کو پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے ۔ انشا اللہ بہت جلد آج کا نوجوان خود بتائے گا کہ اس کو ملکی ترقی میں کیا کردار ادا کرنا ہے ۔ آخر میں انہوں نے سب نیوز کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ سب دا بھلا سب دی خیر

 

Back to top button

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker