اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر احسن ظفر بختاوری نے کہا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر، جو جنوری 2022 کے آخر میں 16 ارب ڈالر سے زائد تھے، جنوری 2023کے اختتام تک کم ہو کر صرف 3.09 ارب ڈالر تک آ گئے ہیں جو بہت تشویشناک صورتحال ہے کیونکہ یہ بحران اگر جاری رہا تو پاکستان کے صنعتی شعبے کی پیداواری سرگرمیاں رک جائیں گی اور بے روزگاری کا ایک نیا سیلاب آئے گا۔
احسن ظفر بختاوری نے کہا کہ ٹیکسٹائل، فارماسیوٹیکل، کوکنگ آئل و گھی، آٹوموبائل، پولٹری، لائٹ انجینئرنگ، کیمیکلز اور پلاسٹک سمیت پاکستان کی بہت سی صنعتوں کو اپنی پیداواری اور کاروباری سرگرمیوں کے لیے خام مال اور دیگر سامان باہر سے درآمد کرنا پڑتا ہے، لیکن ڈالر کی قلت کی وجہ سے بہت سی صنعتوں کا درآمدی مال اس وقت بندرگاہوں پر رکا ہوا ہے جبکہ بہت سی صنعتیں مطلوبہ سامان اور خام مال درآمد کرنے سے قاصر ہیں جس کی وجہ سے ان کی پیداواری سرگرمیاں بند ہونے کا خدشہ ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت فوری طور پر ملک کے اہم چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری سمیت نجی شعبے سے مشاورت شروع کرے تا کہ سب کی مشاورت سے ایک نئی حکمت عملی تیار کر کے معیشت کو موجودہ بحران سے نکالا جا سکے۔
چیمبر کے سینئر نائب صدر فاد وحید نے کہا کہ حکومت کی جانب سے درآمدات پر پابندی، ایل سیز کھولنے پر پابندی، شرح سود میں ریکارڈ اضافے دیگر سخت اقدامات کی وجہ سے معاشی سرگرمیاں پہلے ہی ٹھپ ہو چکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاور سیکٹر کی خراب کارکردگی کی وجہ سے بھی معیشت کو ایک بڑا خطرہ لاحق ہے کیونکہ اس کا گردشی قرضہ بڑھ کر 2.9 کھرب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کاروباری اداروں اور صنعتوں کو اگر مزید توانائی بحران کا سامنا کرنا پڑا تو اس سے تجارتی و صنعتی سرگرمیاں مزید کم ہوں گی۔
چیمبر کے نائب صدر انجینئر محمد اظہر الاسلام ظفر نے کہا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے اس وقت مزید سخت شرائط پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا جا رہا ہے جس سے کاروباری برادری کے ساتھ ساتھ عام آدمی کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ ہو گا۔انہوں نے کہا کہ حکومت تاجر برادری کو اعتماد میں لے کر آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے کرے تا کہ کاروبار اور عوام کو مزید مشکلات سے بچایا جا سکے۔