کراچی(آئی پی ایس)پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) کا بینچ مارک ’کے ایس ای 100 انڈیکس‘کے پوائنٹس میں مسلسل دوسرے روز گراوٹ دیکھنے میں آئی۔معاشی ماہرین نے معیشت کے حوالے سے غیر یقینی کی صورتحال،عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے نویں جائزے کی تکمیل میں تاخیر، زرمبادلہ کے بحران اور شرح مبادلہ میں عدم استحکام پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شیئرز کی قیمتوں میں کمی کی وجوہات قرار دیا۔کاروباری ہفتے کے تیسرے روز دوپہر 12 بج کر 26 منٹ تک کے ایس ای 100 انڈیکس 456.28 پوائنٹس یا 1.15 فیصد کمی کے بعد 39 ہزار 347 پوائنٹس پر آگیا۔انٹرمارکیٹ سیکیورٹیز میں ایکویٹی ہیڈ رضا جعفری نے کہا کہ مارکیٹ میں مندی کا رجحان ادائیگیوں کے توازن کے حوالے سے ٹھوس اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے ہے جس میں آئی ایم ایف کے جائزے کی تکمیل میں تاخیر اور سعودی عرب سے متوقع ڈالر انفلو میں تاخیر بھی شامل ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے ٹھیک یقین دہانی کرائی کہ آئی ایم ایف پروگرام کی تعمیل کی جائے گی لیکن اس کے باوجود مارکیٹ میں منفی رجحان ہے کیونکہ سرمایہ کار اقدامات کے ذریعے الفاظ کو عملی جامہ پہناتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔عارف حبیب کارپوریشن سے منسلک احسن محنتی نے کہا کہ پاکستانی روپے کا عدم استحکام اور صنعت کاروں پر غیر ملکی کرنسی کے بحران کے اثرات کی وجہ سے اسٹاک میں مندی کا رجحان دیکھا گیا۔مالیاتی اور ڈیٹا اینالیٹکس ویب پورٹل میٹس گلوبل کے مطابق رواں مالی سال کے آغاز سے ڈالر کے مقابلے میں مقامی کرنسی 19 روپے 6 پیسے یا 8.52 فیصد تک گراوٹ کا شکار ہوچکی ہے۔دوسری جانب اوپن مارکیٹ سے ڈالر غائب ہو گیا جبکہ انٹربینک مارکیٹ میں بحران کے باعث غیر ملکی ادائیگیاں تعطل کا شکار ہیں، اس صورتحال میں ملک ایئرلائنز کے واجبات کی ادائیگیاں کرنے اور بندرگاہوں پر آنے والے درآمدی سامان کی ادائیگی کرنے سے قاصر ہے، لیٹر آف کریڈٹ (ایل سیز) کھولنا بھی ایک چیلنج بن چکاہےجس کی وجہ سے کئی کمپنیوں نے درآمدی خام مال کی کمی کی وجہ سے پیداوار عارضی طور پر روک دی ہے۔احسن محنتی نے مزید کہا کہ سیاسی غیر یقینی صورتحال، دسمبر میں مہنگائی میں مزید اضافے کے خدشات اورحکومت کے پیٹرولیم لیویز اور بجٹ میں سیلاب سے ہونے والے نقصانات کی وجہ سے آئی ایم ایف ای ایف ایف (توسیعی فنڈ کی سہولت) کے جائزے میں تاخیر پر تشویش کے باعث مارکیٹ میں مندی کے رجحان میں اہم کردار ادا کیا۔پاکستان نے 2019 میں 6 ارب ڈالر کے آئی ایم ایف پروگرام میں شمولیت اختیار کی تھی جسے رواں سال کے شروع میں بڑھا کر 7 ارب ڈالر کردیا گیا تھا۔پروگرام کا نواں جائزہ جس کے تحت ایک ارب 18 کروڑ ڈالر جاری ہونے ہیں ، فی الحال زیر التوا ہے، مسلم لیگ (ن) کی زیرقیادت حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کی جانب سے رکھی گئی بعض شرائط کو تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ کی وجہ سے 2 ماہ کے لیے ملتوی کر دیا گیا اور اختلافات تاحال باقی ہیں۔گزشتہ روز وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ حکومت کے پاس عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پروگرام پر عمل درآمد کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے اور اسے ”تکلیف دہ حقیقت“ قرار دیا۔وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے بھی بدھ کو کہا کہ پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ کی گئی اپنی کمٹمنٹ اور اپنے وعدوں کو پورا کرے گا۔پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک ارب 18 کروڑ ڈالرکے اجرا کے لیے آئی ایم ایف کے نویں جائزے کی تکمیل کرے جب کہ اس کے کم زرمبادلہ کے ذخائر ایک ماہ کی درآمدات پوری کرنے کے لیے بھی بمشکل ہی کافی ہیں۔
Related Articles
سٹاک مارکیٹ میں ایک اور تاریخ رقم، 100 انڈیکس 97 ہزار کی نفسیاتی حد عبور کرگیا
جمعرات, 21 نومبر, 2024