اہم خبریںپاکستانتازہ ترین

الیکشن کمیشن نے وفاقی دارالحکومت میں بلدیاتی انتخابات کا شیڈول منسوخ کردیا

اسلام آباد(آئی پی ایس)الیکشن کمیشن نےوفاق میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے محفوظ فیصلہ سنا دیا ،وفاقی دارالحکومت میں31دسمبر 2022کو ہونیولے بلدیاتی انتخابات کا شیڈول منسو خ کردیا جبکہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے ریمارکس دیئے کہ کوئی ایسی قانون سازی ہوکہ لوکل گورنمنٹ الیکشن اپنے وقت پرہوں کیونکہ ہمیں صوبوں میں بھی بلدیاتی انتخابات کے لیے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر الیکشن کمیشن میں اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات سے متعلق سماعت ہوئی، چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے کیس کی سماعت کی۔حکومت کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل جہانگیرجدون اور سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف الیکشن کمیشن میں پیش ہوئے، پی ٹی آئی کی جانب سے بابراعوان اور علی نواز اعوان جبکہ جماعت اسلامی کی جانب سے میاں اسلم پیش ہوئے۔حکومتی وکیل اشتر اوصاف نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے فیصلہ دیا ہے، اسلام آباد انتظامیہ نے یونین کونسلز کی تعداد میں اضافے کی سفارش کی ہے، الیکشن کمیشن کو آبادی میں اضافے کا معاملہ دیکھنا چاہیے۔

 

دلائل کے دوران اشتر اوصاف نے بینچ سے سوال کیا کہ کیا آپ اپنے اس حکمنامے کے مطابق الیکشن کرائیں گے جسے منسوخ کر دیا گیا ہے؟انہوں نے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ شفاف الیکشن کرانے کے لیے زمینی حقائق کو مدنظر رکھیں جس میں تمام لوگوں کی نمائندگی ہو۔علی نواز اعوان کے وکیل بابراعوان نے دلائل دیے کہ اسلام آباد میں حلقہ بندیوں میں اضافے کے پارلیمنٹ کے بل پر صدر کے دستخط نہیں ہیں لہذا یہ ابھی قانون نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں قانون کا مذاق نہیں اڑانا چاہیے، آئین کے تحت یہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین کے مطابق الیکشن کا انعقاد کرے۔بابر اعوان نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ حکومت ان بلدیاتی انتخابات میں اسی طرح پارٹی ہے جس طرح ہم الیکشن لڑ رہے ہیں، حکومت انتخابات ملتوی کرانے کے معاملے میں اتھارٹی نہیں ہو سکتی۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن حلقہ بندیاں کر چکا ہے اور اس حوالے سے اعتراضات بھی سن چکا ہے، جب الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہو جائے تو قانون کے مطابق نئی قانون سازی نہیں ہو سکتی۔جماعت اسلامی کے وکیل حسن جاوید نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کرانے کی پوری ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے، اس میں وفاقی حکومت کی دخل اندازی کا مطلب الیکشن کمیشن کے اختیارات کو محدود کرنا ہے۔چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ ہائی کورٹ نے یونین کونسلز کی تعداد کا جائزہ لینے کا بھی کہا ہے، اس پر جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کا اختیار محدود نہیں کیا، ہائی کورٹ کے فیصلے میں ایسی کوئی قدغن نہیں کہ کمیشن دوبارہ فیصلہ نہیں کر سکتا۔

 

فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن نے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جوکہ اب سنادیا گیا ہے۔دورانِ سماعت چیف الیکشن کمشنر نے ریمارکس دیئے کہ اسلام آباد میں 2 بار حلقہ بندیاں ہوچکی ہیں اور پنجاب میں بھی 2 بار حلقہ بندیاں ہوچکی، تیسری بار ہونے جارہی ہیں، حکومت کو پہلے خیال کیوں نہیں آیا کہ وقت پر یوسیزبڑھا لینی چاہئیں، اب جب شیڈول کا اعلان ہوچکا ہے تو یوسیز بڑھانا چاہ رہے ہیں، حکومت نے کمیشن کو ایک پیچیدہ صورتحال میں ڈال دیا ہے، آئین کے آرٹیکل 148 میں لکھا ہے کہ لوکل قانون کے مطابق الیکشن کروانے ہیں، اب وہ قانون ہی بدل دیا جائے تو پھر کیا کیا جائے۔چیف الیکشن کمشنر نے کہاکہ کوئی ایسی قانون سازی ہوکہ لوکل گورنمنٹ الیکشن اپنے وقت پرہوں، ہمیں صوبوں میں بھی بلدیاتی انتخابات کے لیے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، میئرکا انتخاب ڈائریکٹ کردیا گیا ہے، ہمارے پاس تو ان کے کاغذات نامزدگی بھی نہیں، کیا پتا کل پھر یونین کونسل کی تعداد کم کردی جائے۔چیف الیکشن کمشنر نےمزید کہا کہ ہم پارلیمنٹ کو لکھیں گے کہ بلدیاتی انتخابات بروقت مکمل ہونے چاہئیں، آئین میں بلدیاتی انتخابات کرانا لازم ہے، خدشہ ہے حکومت حلقہ بندی کے بعد دوبارہ یونین کونسلز میں ردوبدل نہ کردے، حکومت کہیں تو اس چیز کو روکے، حکومتیں ہر دوسرے دن الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرکے بلدیاتی انتخابات ملتوی کردیتی ہیں۔

 

خیال رہے کہ 20 دسمبر کو وزارت داخلہ نے وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد اسلام آباد میں یونین کونسلز کی تعداد میں اضافے کا نوٹی فکیشن جاری کردیا تھا جس کے بعد بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کا خدشہ بڑھ گیا تھا۔تاہم وفاقی حکومت کی جانب سے یونین کونسل کی تعداد میں اضافے کے بہانے اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کے اقدام کے ایک روز بعد 21 دسمبر کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے واضح کردیا تھا کہ انتخابات شیڈول کے مطابق 31 دسمبر کو ہی ہوں گے۔الیکشن کمیشن کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ’الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل اے (2)-140، آرٹیکل 218، (3) آرٹیکل 219 (ڈی) اور آرٹیکل 222 کے تحت اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے وفاقی حکومت کی جانب سے 19 دسمبر 2022 کو جاری کردہ نوٹی فکیشن کے باوجود انتخابات کے عمل کو جاری رکھنے کا فیصلہ کرتا ہے کیونکہ مذکورہ نوٹی فکیشن اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2015 کے سیکشن 4 (4) کی خلاف ورزی ہے‘۔الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواستیں دائر کی گئی تھیں، 23 دسمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے یونین کونسلز بڑھانے کا حکومتی فیصلہ مسترد کرنے کا نوٹی فکیشن کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کو تمام فریقین کو سن کر دوبارہ فیصلہ کرنے کا حکم دے دیا تھا۔عدالت نے فیصلے میں کہا تھا کہ الیکشن کمیشن 27 دسمبر کو یونین کونسلز کی تعداد بڑھانے سے متعلق فریقین کو سن کر فیصلہ کرے۔علاوہ ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو مزید ہدایت دی تھی کہ ووٹرز لسٹوں کی درستی کے لیے دائر درخواستوں پر بھی متاثرہ ووٹرز کو 28 دسمبر کو سنا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker