گلگت(آئی پی ایس) ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان، گلگت بلتستان کی طرف سے "پالیسی ڈائیلاگ آن کلائمیٹ گورننس” کے نام سے گلگت میں ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں سیاسی و سماجی رہنماوں کے علاوہ ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلیوں پہ کام کرنے والے حکومتی اداروں کے سربراہاں، خواتین تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ سیمنارسے خطاب کرتے ہوئے انسانی حققوق کی تنظیم برائے پاکستان، گلگت بلتستان کے کوارڈینیٹرز اسرار الدین اسرار نے کہا کہ اس پالیسی ڈائیلاگ کا مقصد حکومتی اداروں کو توجہ اس دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ماحولیاتی اور موسمی تبدیلیوں کی طرف دلوانا ہے اور تمام اداروں کو ملا کر موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مستقبل میں درپیش ہونے والے چیلینجز سے نمٹنے کے لئے تیار کرنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے انسانی اور بنیادی حقوق پر بڑا اثر پڑتا ہے جس سے نبردآزما ہونا ہمارا فرض ہے۔سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے وزیر انسانی حقوق و پاپولیشن گلگت بلتستان کرنل (ر) عبید اللہ بیگ نے کہا کہ ہمیں اپنے ماحول کو بہتر بنانے کے لئےمشترکہ کام کرنے کی ضرورت ہے، اس کے لئے حکومت اور اپوزیشن مل کر کام کرنے کے لئے تیار ہیں، اس دنیا میں صرف انسان نہیں رہتے بلکہ حیوانات اور نباتات بھی اس دنیا کا حصہ ہے ہمیں ان سب کا خیال رکھتے ہوئے آگے بڑھنے ضرورت ہے۔ سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے اپوذیشن لیڈر گلگت بلتستان اسمبلی امجد حسین ایڈوکیٹ نے کہا کہ موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے کام کرنے والے ادارے ہمیں سمجھائیں کہ ماحول کو بچانے کے لئے کیا کرنا ہے انہوں نے مزید کہا کہ اس سیمنار کے سب مل کر ہمیں بتائیں کہ ماحول ، موسم ، پہاڑ اور گلیشئرز کو بچانے کے لئے قانون سازی کرنے ضرورت ہے یا اسمبلی میں بل لانے کی ضرورت ہے تو ہم لے کر آئیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گلگت بلتستان میں بلین ٹری سونامی کے نام سے پراجیکٹ کا صرف کاغذوں اور اخبارات حد تک کام ہوا اگر ملین درخت لگتے تو ہمارا خطہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے متاثر نہیں ہوتا۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے پارلیمانی سیکرٹری کلثوم فرمان نے کہا کہ اس وقت حکومت اور پالیسی ساز اداروں کے لئے سب سے اہم مسئلہ موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلی ہونا چاہئے اور اس کے لئے کام کرنے اولین تجیح ہونا چاہئے۔سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے ماہر ماحولیات ڈاکٹر ابرار نے کہا کہ گلگت بلتستان پہاڑی علاقہ ہے، یہاں پر گلیشئرز بہت زیادہ ہیں لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے گلیشئرز تیزی سے پگل رہے ہیں جس کی وجہ سے پانی کا بہاو دیہاتوں کی طرف بڑھ سکتا ہے اور floods کا خطرہ ہے۔سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے معروف سکالر عزیز علی داد نے کہا کہ ماحولیات اور موسم کے تحفظ کے لئے ہمیں قدرت کے قریب ہونے کی ضرورت ہے اور وہ تکنیکس اپنانے کی ضرورت ہے جو ماضی میں ہمارے اباواجداد نے اپنائے تھے۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ پرانے وقت میں سفید گلیشئرز اور سرسبز و شاداب وادیوں کو مقدس اور پریوں کا مسکن سمجھا جاتا تھا لیکن آج کل ہم اس حد تک پیسوں کے پیچھے چلے گئے ہیں کہ درختوں کو کاٹنا شروع کردیا ہے جس سے ماحولیات کو نقصان ہورہا ہے۔سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے عوامی ورکرز پارٹی گلگت بلتستان کے چیئرمین کامریڈ بابا جان نے کہا کہ ادارے ماحولیات اور موسمیات کو مکمل نظراندار کررہے ہیں، جس کی وجہ سے آلودگی بڑھ رہے ہے حکومت کو چاہئے کہ وہ ماحول دوستی کے لئے قانون سازی کرے اور حکومتی و غیر سرکاری ادارے بڑی بڑی گاڑیوں کے بجائے پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کریں اور ماحولیات و موسمیات پر ریسرچ کرنے والے اداروں کو چاہئے کہ وہ ریسرچ پبلک کرے ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ماحولیات اور موسمیات کو باقاعدہ نصاب میں شامل کریں۔ سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے ماہر ماحولیات اور کے آئی یو کے پروفیسر ظفر خان نے کہا کہ ماحولیات کا تحفظ کو آئین پاکستان میں بنیادی حقوق کے طور پر شامل کیا گیا کیونکہ یہ انسانوں کی بنیادی حق ہے کہ وہ صاف پانی پئے، صاف ماحول میں سانس لے اور کھلے اور تندرست ماحول میں چلے۔ سیمنار سے ای پی آئی کے ڈائریکٹر خادم حسین، ارشاد کاظمی، شیرنادرشاہی، راجہ کرامت اللہ و دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان میں بڑے بڑے گاڈیوں پر پابندی لگا کر پبلک ٹرانسپورٹ کا اجرا کیا جائے، تمام نیشنل پارکس اور سیاحتی مقامات میں سیاحوں کے لئے پبلک کوسٹرز چلائے جائے اور ان کو پابند کیا جائے کہ وہ کچرا اور گندگی نہ پھیلائے، دریا کے قریبی علاقوں میں سروس سٹیشنز، قصاب خانوں اور ہوٹل سیوریج پر پابندی لگایا جائے تاکہ آبی حیات اور مچھلیوں کا تحفظ ممکن ہو سکے۔