صحرازدگی کو روکنےکے لیے عالمی وژن کے ساتھ ساتھ چینی حکمت کی بھی ضرورت ہے، میڈ یا
بیجنگ ()
17 جون کو صحرازدگی کو روکنے اور خشک سالی کا مقابلہ کرنے کا 28 واں عالمی دن ہے۔ چین میں اس سال متعلقہ سرگرمیوں کا موضوع ہے "مشترکہ طور پر صحرازدگی کا مقابلہ کریں اور بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کریں”۔ صحرازدگی ایک بڑا عالمی ماحولیاتی مسئلہ ہے جو انسانی بقا اور ترقی کو متاثر کرتا ہے، جس سے دو تہائی ممالک اور خطوں اور دنیا کی آبادی کے پانچویں حصے کو خطرات لاحق ہیں۔ پچھلی چند دہائیوں میں، چین نے مسلسل جدت طرازی کرکے صحرازدگی کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلسل کوششیں کی ہیں، اور ایک "سبز معجزہ” پیدا کیا جس نے دنیا بھر کی توجہ مبذول کرائی ہے۔جمعہ کے روز چینی میڈ یا کے مطا بق 2019 میں امریکی خلائی ایڈمنسٹریشن ناسا کی جانب سے جاری کی گئی ایک تحقیقی رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ زمین کے جنگلات کی کوریج کی شرح 20 سال پہلے کے مقابلے میں نمایاں طور پر بڑھی ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ چین میں بڑے پیمانے پر جنگلات لگانے کا عمل ہے۔
چینی حل اور چینی حکمت وہ اہم شراکت ہیں جو چین نے عالمی صحرازدگی پر قابو پانے کے لیے کی ہیں۔ خاص طور پر پچھلے دس سالوں میں، چین نے صدر شی جن پھنگ کے تجویز کردہ "صاف و شفاف پانی اور سرسبز پہاڑ انمول اثاثہ ہیں” کے ماحولیاتی تحفظ کے تصور پر قائم رہتے ہوئے، صحرازدگی کے کنٹرول کے راستے کی تلاش اور فعال اقدامات کرنے کے لیے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں تاکہ شدید ویران علاقوں میں جنگلات کے رقبے میں اضافہ کیا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ، چین نے انسداد صحرا کے کامیاب تجربات اور گورننس ماڈل بنائے ہیں جن سے دنیا کے دیگر ممالک سیکھ سکتے ہیں۔ چین نے غربت کے خاتمے کی حکمت عملی کے ساتھ مل کر ایک پائیدار ترقی کی راہ پر کامیاب سفر کیا ہے۔ اس سلسلے میں، نہ صرف حکومت مجموعی منصوبہ بندی اور ہم آہنگی پیدا کرتی ہے، بلکہ ماحولیاتی تحفظ کی صنعت اور متعلقہ ادارے بھی تیزی سے ترقی کر رہے ہیں، جس سے صحرائی کنٹرول کے لیے تحریک مل رہی ہے ۔ مثال کے طور پر، چین کے ایک غیر سرکاری ادارے ای لی ریسورسز گروپ نے کئی دہائیوں کی محنت کے بعد چین کے سب سے بڑے صحراؤں میں سے ایک صحرائے کبوچھی میں 6,000 مربع کلومیٹر سے زائد رقبے پر جنگلات لگائے ہیں۔ ای لی گروپ نے پودوں کی کوریج کو بڑھا کر ویران صحرا کو زرخیز زمین میں تبدیل کیا ؛ جدید مویشی بانی ، سیاحت، اور بائیو میڈیسن کی صنعتوں کو فروغ دے کر مقامی لوگوں کے روزگار کی سہولت کو بہتر بنایا ہے، اور صحرائی سیاحت، ماحولیاتی ادویات اور فوٹوولٹک پاور جنریشن انڈسٹری سمیت چھ ایکو انڈسٹریل زونز قائم کرکے ایک سبز صحرائی اقتصادی نظام تشکیل دیا ہے۔ اس علاقے کو اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام نے "گلوبل ڈیزرٹ ایکولوجیکل اکنامک ڈیموسٹریشن زون” کے طور پر نامزد کیا ہے۔
انسان ایک ہی زمین پر رہتے ہیں۔ ماحولیاتی چیلنجوں جیسے کہ گلوبل وارمنگ اور ریگستانوں کا سامنا کرتے ہوئے، تمام لوگ خوشی اور غم میں شریک ہیں اور بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کے رکن ہیں۔ لہٰذا، صحرازدگی پر قابو پانے کے لیے عالمی گورننس، جامع ترتیب، اور مربوط اقدامات کی ضرورت ہے، تاکہ صحرازدگی کی وجہ سے انسانی بقا کو لاحق خطرات کا مقابلہ کیا جا سکے۔ صحرازدگی سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کے انسداد صحرازدگی کے کنونشن کے فریقوں میں سے ایک کے طور پر، چین نے صحرازدگی کا مقابلہ کرنے کے لیے فعال اقدامات اختیار کیے ہیں، اقوام متحدہ کے "2030 گلوبل لینڈ ڈیگریڈیشن نیوٹرل گروتھ” کا ہدف مقررہ وقت سے پہلے حاصل کر لیا ہے، اقوام متحدہ کے انسداد صحرازدگی کے کنونشن کی سیکریٹریٹ کےساتھ مشترکہ طور پر بین الاقوامی ڈیزرٹیفیکیشن کنٹرول نالج مینجمنٹ سینٹرزاور ٹریننگ سینٹرز قائم کئے اور منگولیا، قازقستان اور دیگر ممالک میں صحرائی کنٹرول ٹیکنالوجی کے ڈیمانسٹریشن مراکز قائم کیے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، چین نے بین الاقوامی سیمینار منعقد کرکے اور صحرائی کنٹرول کے مثالی مراکز قائم کرکے "گریٹ گرین وال آف افریقہ” کی تعمیر کی مکمل حمایت کی ہے، اور ہر سال ترقی پذیر ممالک کے لیے تقریباً 100 صحرائی کنٹرول اہلکاروں کو تربیت دی ہے، جس کی عالمی برادری کی طرف سے بڑے پیمانے پر تعریف کی گئی۔
پاکستان بھی صحرازدگی سے متاثر ہونے والا ملک ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کی تعمیر کے ساتھ ہی دونوں ممالک نے صحرازدگی کی روک تھام کے سلسلے میں بھی تعاون جاری رکھا ہے اور بڑی پیش رفت حاصل کی ہے۔ 2016 کے اوائل میں، مذکورہ چائنا ای لی ریسورسز گروپ نے پاکستان کے ساتھ متعلقہ شعبوں میں تعاون کا آغاز کیا، پاکستان کے لیے سبز صحرائی معیشت کی ترقی کا ماڈل متعارف کرایا، جس میں نئی قسم کی مویشی بانی، سیاحت اور بائیومیڈیکل انڈسٹری شامل ہیں اور ثقافتی، ماحولیاتی اور رہائشی عناصر کو مربوط کیا ہے، تاکہ پاکستان کے ویران علاقوں میں بالکل نئی گرین گورننس اور ترقی کا راستہ تلاش کیا جا سکے۔
2016 میں چین اور کچھ ممالک نے صحرا کی تباہی سے نمٹنے کے لیے "دی بیلٹ اینڈ روڈ” سے وابستہ ممالک کے درمیان تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے ایک مشترکہ اپیل کی۔یہ اقدام تعاون کے چھ پہلوؤں پر محیط ہے یعنی مشترکہ ایکشن پلان کی تشکیل، متعلقہ پالیسیوں اور حکمتوں کی ہم آہنگی، متعلقہ ٹیکنالوجی کی منتقلی کو مضبوط بنانا، معلومات کا تبادلہ، متعلقہ صلاحیتوں کی مضبوطی، اور عالمی ثقافتی ورثے کا تحفظ ۔ ہمیں یقین ہے کہ صحرائی چیلنجوں کے مقابلہ میں انسان کاندھے سے کاندھا ملا کر اتحاد اور جیت جیت کا حوصلہ دکھا سکیں گے، صحرا سے ہریالی اور صحرا سے دولت حاصل کریں گے، اور صحرا اور غربت پر قابو پانے کے لیے ایک نیا راستہ تخلیق کریں گے۔