
اسلام آباد(آئی پی ایس )وفاقی حکومت نے مہنگے تیل سے پیدا ہونے والی بجلی کی بچت کے لئے قومی سطح پر عادات بدلنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بروقت مارکیٹیں بند کرنے سے 4000میگاواٹ تک بجلی بچائی جاسکتی ہے ، پی ٹی آئی حکومت نے ملک کو معاشی طور پر تباہ کرنے کے لئے بارودی سرنگیں بچھائیں جس کی وجہ سے حکومت مشکل فیصلے کرنے پر مجبور ہوئی ، تاریخ لکھی جائے گی تو یہ سب کے سامنے ہوگا کہ جب ملک بربا د ہونے جارہا تھا تو اس حکومت نے سیاسی مستقبل دائو پر لگا کر ملک کو بچانے کے لئے عملی اقدامات اٹھائے ، عمران خان نے پی ایس ڈی پی کے تحت آخری سہ ماہی کے فنڈز کو پٹرولیم مصنوعات سبسڈی کے طور پر استعمال کیا ،اگر یہ سبسڈی ایک سال جاری رکھی جاتی تو 1200 سے 1500 ارب قومی خزانے پر بوجھ ہوتا ،اتنا ہمارا سالانہ دفاعی بجٹ ہوتا ہے ، دعوی سے کہتے ہیں کہ غیر ملکی سازش کے معاملے پر جوڈیشل کمیشن بھی بنا دیا جائے تو عمران خان اس سے بھی بھا گ جائے گا ، مشورہ ہے کہ عمران خان جوڈیشل کمیشن کیے پیچھے چھپنے کی ناکام کوشش ترک کردیں ،عمران خان چاہتے ہیں کہ اقتدار ان کے حوالے ہو، نہیں تو فوج ،ملک اور ادارے تباہ ہوجائیں گے ۔ان خیالات ا ظہار وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف ، وفاقی وزیر مواصلات مولانا اسعد محمود ، مشیر برائیامور کشمیر قمر الزمان کائرہ ، وزیر مملکت برائے پٹرولیم مصدق ملک نے جمعرات کو پی آئی ڈی میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے ۔
وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا کہ گذشتہ رات تیسری مرتبہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانی پڑی اس کی دو وجوہات تھیں ایک تو پی ٹی آئی حکومت سے ملنے والی کھنڈرمعاشی صورتحارل اور غلط پالیسیاں تھیں، ہمارے پاس دو آپشن تھے کہ ہم فوری الیکشن میں جاتے اور عبوری حکومت معاشی فیصلے کرتی یا ہم خود مشکل فیصلے کرتے ، آئی ایم ایف کا معاہدہ جو مکمل نہیں ہوا اور اس کی تکمیل کا تمام ترانحصار دسمبر کی کارکردگی پر انحصار تھا ، اس موقع پر سابق حکومت نے جاتے جاتے سبسڈی دے دی جس کا مقصد آنے والوں کے لئے مشکلات پیدا کرنا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ رات پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود اب بھی متحدہ عرب امارات(یو اے ای ) جو کہ پٹرولیم مصنوعات پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ برآمدات بھی کرتا ہے میں رائج نرخوں سے کم ہے ، اگر معیشت اچھی ہوتی اور دھچکے برداشت کرسکتی تو فوری طور پر مشکل فیصلے نہ کرتے ، آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا ۔ چالیس پچاس سال سے نقصان میں جانے وا لے درجنوں سرکاری اداروں کی نجکاری کی جائے تا کہ انھیں بہتر انداز سے چلایا جاسکے ۔
پاکستان سٹیل مل ، پی آئی اے ،ایس این جی پی ایل ، ایس ایس جی ایل ، ڈسکوز سمیت دیگر 90 فیصد ادارے خسارے میں چل رہے ہیں ان کی نجکاری ہونی چاہیے اور ان اداروں کے ملازمین کوایک اچھا گولڈن شیک ہینڈ دیا جائے تا کہ وہ کوئی اور کام کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ آجکل عمران خان جس قسم کی بیانات دے رہے ہیں وہ قوم اور میڈیا سمیت سب کے سامنے ہیں ،اب وہ اپنے دور حکومت کی بات نہیں کرتے یہ بھی ایسے ہی ہے جیسے بیرونی سازش والی بات ہے ، عمران خان خواہ مخواہ دفاعی اداروں کو ملوث کر رہے ہیں ،سوائے اس بات کے کہ مجھے کیوں آئینی طریقے سے معزول کیا ، وہ کوئی کام کی بات نہیں کر رہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت نے چار سال میں جو بیرونی قرضے لئے وہ 70سال کیقرضوں کا 80فیصد بنتا ہے ، پی ٹی آئی قیمتیں جس سطح پر چھوڑ کر گئی ہے اس کے اثرات آج بھی عوام کو محسوس ہورہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ دو ماہ میں کیا اچھائی یا برائی کرنا تھی ، اچھے اقدامات اٹھارہے ہیں ، چار سالوں میں جو قدم بہ قدم کھنڈرات چھوڑ کر گئے تھے ان سے نمٹ رہے ہیں ۔ انہوں ے کہا کہ روس ، یوکرین جنگ کی وجہ سے پٹرولیم مصنوعات ،گیس ،یوریا اور اناج کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اس کے اثرات بھی ہیں ۔ وزیر دفاع نے کہا کہ پاکستان واحد ملک ہے جہاں پر رات ایک بجے تک مارکیٹیں کھلی ہوتی ہیں حالانکہ 365دن سورج نکلتا ہے لیکن ہم اس سے استفادہ نہیں کرتے ، ہماری پوری قوم با لخصوص تاجروں سے اپیل ہے کہ وہ مہذب ممالک میں رائج اوقات اپنائیں ۔ انہوں نے کہا کہ تیل ، بجلی ،گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر قابو پانے کا مقابلہ کفایت شعاری سے ہی ممکن ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ گرانفروش مافیا اور پٹرول پمپ مالکان ملکر عوام کی مشکلات اور مصیبتوں کا فائدہ اٹھا رہے ہیں، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے سے قبل ہی پٹرولیم مصنوعات کی فراہمی روک کر ناجائز منافع کمایا جاتا ہے ، مصنوعی قلت سے فائدہ اٹھانا کسی صورت درست نہیں ہے ۔
انہوں نے کہا کہ عوامی مشکلات کا ادراک ہے ، مشکلات کو کم سے کم کرنے کے لئے کوشاں ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اس بات سے متفق ہیں کہ کفایت شعاری کے لئے مثال حکومت ہونی چاہیے ، سرکاری سطح پر بھی پٹرولیم اور گاڑیوں کے اخراجات میں کمی ہونی چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر اعداد و شمار کا جائزہ لینا ہو تو دیکھ لیں کہ پی ٹی آئی کے دور میں پٹرولیم مصنوعات فی بیرل کیا تھی اور 37 روپے بڑھائے گئے اور اب عالمی سطح پر 120 ڈالر فی بیرل ہے تو اس میں اضا فہ ہوا تو کون سا کم ہے ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی سب سے بڑا فورم ہے ، اس نے پہلے اجلاس میں جو فیصلہ کیا دوسرے میں بھی وہ ہی فیصلہ تھا ، اس کو نہیں مان رہے ، اگر جوڈیشل کمیشن بھی بن جائے تو عمران خان اس سے بھاگ جائے گا ۔وفاقی وزیر مواصلات مولانا اسعد محمود نے کہا کہ آج ہم ناکردہ گناہوں کے ساتھ عوام کے کٹہرے میں کھڑے ہیں، جب آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا تو ہم پارلیمان میں چیختے رہے کہ یہ عوام دشمن معاہدہ ہے ،بدقسمتی کی بات تھی کہ ماضی کی حکومت کے تین سالوں میں الگ الگ وزرا خزانہ نے بجٹ پیش کئے ،اپنے ہی وزرا پر عدم اعتماد معاشی پالیسیوں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس مشکل صورتحال میں تمام سٹیک ہولڈرز کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت حکومت معروضی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے مہنگائی کو کم کرنے کے اقدامات کر نے کے ساتھ ساتھ لانگ ٹرم حل کے لئے تمام سٹیک ہولڈرز سے بات کر رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے سے انکار کیا ، ہم کہتے ہیں کہ یہ معاہدہ ہی کیوں کیا گیا ،عمران خان قومی مجرم ہیں ۔ پاکستان مخالف طرز حکومت ، معاشی پالیسیوں ، سیاسی بحران پیدا کرنے پر جوڈیشل کمیشن قائم ہونا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ توانائی کی بجث کے لئے تاجروں سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کواعتماد میں لے رہے ہیں ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عمران خان نے جاتے جاتے پٹرولیم مصنوعات کے لئے جس سبسڈی کا اعلان کیا، پی ایس ڈی پی کی آخری سہ ماہی کے فنڈز اس سبسڈی کے لئے استعمال کیے گئے ۔وزیر مملکت برائے پٹرولیم مصدق ملک نے کہا کہ عمران خا ن حکومت نے پٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتیں جون تک بڑھانے کا اعلان کر کے ہمارے لئے سرنگیں بچھائیں ، کابینہ اور ای سی سی کے کسی فیصلے میں اس آخری پٹرولیم مصنوعات کی سبسڈی کا ذکر تک نہیں ہے اور نہ ہی اس کے لئے کسی خاص بجٹ کا ذکر ہے ۔ یہ صرف سیاسی اعلان تھا۔ ایک ماہ تک قیمتیں نہ بڑھانے سے ہمارے قومی خزانے پر 120ارب کا بوجھ پڑا ، اگر اسی طرح ایک سال تک قیمتیں نہ بڑھائی جائیں تو 1200سے 1500ارب کا بوجھ برداشت کرنا پڑتا ، دوسری جانب اگر ہم دیکھیں تو ہمارا دفاعی بجٹ 1532 ارب ، پی ایس ڈی پی 727 ارب ، وفاقی حکومت کے اخراجات 550ارب ،سبسڈی کی مد میں 360 ارب ہے ۔
انہوں نے کہا کہ یہ بارودی سرنگیں ملک کو معاشی طور پر تباہ کرنے کے لئے بچھائیں گئی تھیں ۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے علاوہ 8 کروڑ لوگوں کے لئے ماہانہ سہولت کا اہتمام کیا ہے ،40فیصد عوام بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے استفادہ کر رہی ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں وزیر مملکت پٹرولیم مصدق ملک نے کہا کہ سابق حکومت نے ایک سال میں بجلی کی مد میں 1100ارب کی سبسڈی فراہم کی ، گیس کے شعبے میں بدانتظامی کے باعث ایک سال میں گیس کے کے شعبے کے گردشی قرضے 1400 ارب ہوگئے ، یہ سب ہم اس سیاسی فیصلے کی قیمت ادا کررہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ جب بھی تاریخ لکھی جائے گی تو نمایاں ہوگا کہ جب ملک برباد ہورہا تھا تو اس حکومت نے بچانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی اس میں اپنا سیاسی مستقبل بھی دائو پر لگا دیا ۔وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی حکومت آنے والے دنوں میں عوامی مشکلات میں کمی اور ریلیف فراہمی کے لئے اقدامات اٹھاتی رہے گی ۔
وزیراعظم کے مشیر برائے امور کشمیر قمر الزمان کائرہ نے کہا کہ جب سے یہ حکومت آئی آج تیسری مرتبہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمیتں بڑھا رہے ہیں ، سبسڈی جاری رہتی اور وسائل فراہم نہ ہوتے تو ملک ڈیفالٹ کی طرف چلاجاتا اسی لئے موجودہ اتحادی حکومت کو مشکل فیصلے کرنے پڑ رہے ہیں ۔پی ٹی آئی کے لوگ کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف معاہدے کے مطابق آج پٹرول 300روپے لیٹر ہوتا ، وہ ٹھیک کہہ رہے ہیں انہوں نے معاہدہ ہی ایسا کیا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم اللہ تعالی کے بعد عوام کے سہارے چل رہے ہیں، باقی تو کسی اور کے سہارے چل رہے تھے ۔انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات کے تناظر میں پاک فوج نے بھی اپنے اخراجات کم کیے ہیں ایسے میں ہم سب کو قومی سطح پر اپنی عادات کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس دو آپس تھے کہ ملک کو سری لنکا جیسے حالات کی طرف جانے دیتے یا مشکل فیصلے کر کے ملک کو بچاتے ۔انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے ٹارگٹڈ سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا ہے اس پر کام ہورہا ہے ۔