
اسلام آباد (آئی پی ایس ) قومی کمیشن برائے وقار نسواں نے عورتوں کی سیاسی عمل میں شمولیت جیسے اہم موضوع پر مشاورتی اجلاس کا انعقاد کیا،جس میں پاکستانی سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں، خواتین ونگ کے سربراہان اور سول سوسائٹی کے علاوہ حکومتی عہدیداران کو شرکت کی دعوت دی گئی
سیشن کا آغاز کرتے ہوئے چیئرپرسن قومی کمیشن برائے وقار نسواں نیلوفر بختیار نے کہا کہ عورتوں کے مسائل حل کرنے کے لیے عورتوں کی سیاسی عمل میں شمولیت اہم کردار ادا کر سکتی ہے اور آئندہ آنے والے انتخابات میں خواتین کی شمولیت کو زیادہ سے زیادہ موثر بنانے کے لیے کمیشن ہر طرح کے اقدامات کر رہا ہے اور یہ اجلاس اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے،انہوں مزید کہا کہ جونہی ملک میں کوئی مسئلہ درپیش ہو ہمیشہ عورتوں کا ایجنڈا پیچھے چلا جاتا ہے،ملک کی نصف آبادی کیا صرف ووٹ دینے کے لیے ہے کیا ان کو لیڈرشپ کا رول کہیں نہیں دیا جائے گا.
الیکشن کمیشن کی ترجمان محترمہ نگہت صدیق نے کہا کہ الیکشن سے پہلے یہ اہم وقت ہے جب سیاسی جماعتوں کو الیکشن کمیشن کے ساتھ مل کر ووٹر لسٹوں پہ کام کرنا چاہیے کیونکہ عام انتخابات کے اعلان کے بعد ووٹر لسٹ پر کام ممکن نہیں ہوسکے گا ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں خواتین کو درپیش مشکلات کی وجہ سے ثقافتی تقاضوں کو مدنظر رکھ کر پولنگ آفیسرز کی تربیت کی جا رہی ہے تاکہ خواتین کی زیادہ سے زیادہ سیاسی شمولیت کو یقینی بنایا جا سکے.
اس موقع پر نادرہ کی ترجمان معظمہ یوسف نے کہا کہ نادرہ ایک ریسورس فل ادارہ ہے اور اس کے قائم کردہ سینٹرز میں سے 90 فیصد مراکز میں خواتین اہلکار موجود ہیں. نادرہ اور الیکشن کمیشن نے ملکر خواتین کی رجسٹریشن کے لیے کئی مہم چلائی ہیں. اور ہم حالیہ الیکشن کے لئے اب تک 1500000(پندرہ لاکھ)خواتین کی رجسٹریشن کرچکے ہیں اور ہم نے افراد باہم معذوری کے ساتھ بھی مہم چلا رہے ہیں جس میں خواتین باہم معذوری کو بڑی تعداد میں رجسٹرڈ کیا جارہا ہے انہوں نے مزید کہا کہ اب 2900 ٹرانس جینڈر کو رجسٹرڈ کیا ہے. اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سماجی کارکن فرزانہ باری نے کہا نادرا نے ووٹرز کا جینڈر گیپ ختم کرنے کے لئے بہت کام کیا ہے مگر انکو کام کی رفتار بہت تیز کرنا ہوگی ورنہ دس ملین ووٹ دینے کی عمر کی خواتین کو رجسٹرڈ ہونے میں 25 سال لگ جائینگے ۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آخری مردم شماری کے مطابق ٹرانس جینڈر کی تعداد 10418 ہے جبکہ نادرا نے اب تک صرف 2900 رجسٹرڈ کئیے ہیں ۔ ضروری ہے کہ جلد از جلد خواتین، ٹرانس جینڈر اور افراد باہم معذوری کی رجسٹریشن کے عمل کو تیز کیا جائے اور فیصلہ کیا جائے کہ اگر کسی بھی پولنگ سٹیشن میں خواتین ووٹرز کی تعداد 10 فیصد سے کم ہو تو وہاں کے الیکشن رزلٹ کو کالعدم قرار دیا جائے. یو این ویمن کے نمائندے حسن حکیم نے کہا کہ خواتین کو سیاسی عمل کا حصہ بنانے کے ساتھ ساتھ جمہوری اداروں میں اہم فورم کا حصہ بھی بنایا جائے جیسے پارلیمانی کمیٹی اور مختلف اداروں میں فیصلہ سازی مثلا بجٹ یا اسی طرح کے اہم ملکی امور جس میں روایتی طور پر عورتوں کی شمولیت کم ہوتی ہے .
اجلاس میں پیش کردہ تجاویز میں سے چند یہ ہیں ۔سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کا نادرا سے رابطہ خاص طور پہ خواتین باہم معذوری اور اقلیتوں کے حوالے سے ہونا چاہیے ،اگر کسی بھی پولنگ اسٹیشن پہ خواتین ووٹرز کی تعداد 10 فیصد سے کم ہو تو الیکشن کمیشن نوٹس لے ، خواتین ووٹرز کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے ، نادرا، الیکشن کمیشن، سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی کو ملکر اقلیتوں کی خواتین کی رجسٹریشن ، ٹرانس جینڈر اور خواتین باہم معذوری کو یقینی بنانا چاہیے ۔خواتین کے 33% براہ راست کوٹے پہ عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے ۔کوٹہ سسٹم کے ذریعے منتخب ہونے والی خواتین کے میرٹ کو عوام کے سامنے رکھا جائے ، ملک میں ہر حلقے سے خواتین نشستوں کے مواقعے ہونے چاہیں ،اسلام آباد میں خواتین کے لئے سیٹ مختص کی جائے نیز آزاد جموں کشمیر کے لئے 5% کوٹہ خواتین کے لئے مختص ہونا چاہییکمیشن اجلاس کے تمام سفارشات پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لئے، تمام متعلقہ اداروں کو بھیجے گا۔