اسلام آباد(آئی پی ایس)وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے واضح کیا ہے کہ حکومت نے سینیٹری پیڈز، ڈائپرز یا ان کے خام مال پر پابندی عائد نہیں کی ہے،
یہ پابندیاں صرف کچھ لگژری یا غیر ضروری سامان پر لاگو ہوتی ہیں۔ایک ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ کسی صنعتی خام مال پر کوئی پابندی نہیں ہے، پابندی صرف کچھ لگژری یا غیر ضروری سامان پر ہے اور یقینی طور پر سینیٹری پیڈز یا ڈائپرز (یا ان کے خام مال)پر کوئی پابندی نہیں ہے،
جو کہ بلاشبہ ضروری سامان ہیں۔وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ حکومت پیر کو اس معاملے پر باضابطہ وضاحت جاری کرے گی۔19 مئی کو حکومت نے ایک ہنگامی اقتصادی منصوبے کے تحت غیر ضروری لگژری اشیا کی درآمد پر پابندی عائد کر دی تھی۔اس فیصلے کا اعلان ملک کے بڑھتے ہوئے درآمدی بل، بڑھتے ہوئے کرنٹ اکانٹ خسارے اور غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کی وجہ سے روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں زبردست اضافہ دیکھنے کے بعد کیا گیا۔
بعض حلقوں کی جانب سے خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ فہرست میں شامل 30 سے زائد اقسام کی ممنوع اشیا میں سینیٹری نیپکن کی تیاری کے لیے استعمال ہونے والا خام مال بھی شامل ہے۔پاکستان میں پیڈز تیار کرنے والی 2 کمپنیوں میں سے ایک سینٹیکس کے چیف آپریٹنگ آفیسر محمد کامران نے حال ہی میں ڈان امیجز کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ نیپکن کی تیاری میں شامل 2 بنیادی خام مال درآمد کیے جاتے ہیں۔محمد کامران نے کہا پابندی کا مطلب یہ ہوگا کہ فیکٹری کو بالآخر بند ہونا پڑے گا
کیونکہ موجودہ سپلائی ختم ہونے کے بعد ہم انہیں مزید تیار نہیں کر سکتے۔انہوں نے کہا کہ مذکورہ خام مال سیپ پیپر اور ویڈنگ سیلولوز فائبر ہیں، یہ مصنوعات ایچ ایس کوڈ 4803.000 کے تحت آتی ہیں جن پر وزارت تجارت کے مطابق نئی درآمدی پابندیوں کے تحت پابندی عائد کر دی گئی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ بنیادی خام مال ہیں جو خواتین کے سینیٹری نیپکن کی تیاری میں استعمال ہوتے ہیں، یہ اشیا نہ تو ٹشوز ہیں اور نہ ہی لگژری بلکہ ایس آر او کے سیریل نمبر 63 میں شامل ہیں۔تیار مصنوعات کی فہرست میں خام مال یا نیم تیار شدہ مصنوعات کی غیر منصفانہ شمولیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے محمد کامران نے انہیں لگژری اشیا میں شامل کیے جانے سے اتفاق نہیں کیا۔