برطانیہ میں لندن کی ڈسٹرکٹ کورٹ نے "وکی لیکس” ویب سائٹ کے بانی جولیان پال اسانج کو امریکہ کے حوالے کرنے کی باضابطہ منظوری دے دی، جس نے لوگوں کے سوالات اور احتجاج کو جنم دیا۔ وکی لیکس کے ایڈیٹر انچیف کرسٹن ہرافسن نے نشاندہی کی کہ امریکہ اور برطانیہ کا یہ اقدام "اسانج کو سزائے موت دینے کے مترادف ہے۔”
2010 میں، اسانج کی قائم کردہ "وکی لیکس” ویب سائٹ نے افغانستان اور عراق کی جنگ کے بارے میں امریکی حکومت کی بڑی تعداد میں خفیہ دستاویزات جاری کیں، جن میں عام شہریوں پر بمباری اور تشدد کرنا شامل تھا۔ اس کے بعد، اسانج نے امریکی حکومت میں کئی سکینڈلز کا انکشاف کیا، یوں وہ امریکی حکومت کی "آنکھوں میں کانٹا” بن گئے، اور ان پر 18 جرائم کا الزام عائد کیا گیا۔ جون 2012 میں، اسانج نے لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے سے سیاسی پناہ کی درخواست دی۔ اپریل 2019 میں، اسانج کو ایکواڈور کے سفارت خانے نے برطانیہ کے حوالے کر دیا تھا۔ اس کے بعد امریکہ نے حوالگی کی درخواست جاری کی۔
اسانج کے تجربے نے دنیا کو واضح طور پر امریکہ کی نام نہاد "انسانی حقوق” اور "جمہوریت” کی حقیقت کو دکھادیا ہے ۔ امریکہ کا خیال ہے کہ وہ زمین پر کسی بھی صحافی کو صرف اس لیے جیل بھیج سکتا ہے کہ وہ امریکی جرائم کو بے نقاب کرتا ہے، امریکی حکومت کسی بھی طرح سے "جمہوری” نہیں ہے۔ اسانج کی قسمت ایک آئینے کی طرح ہے جو "امریکی آزادی” کی منافقت اور بدصورتی کو ظاہر کرتی ہے، اس کا اصل چہرہ اپنی بالادستی دستی کے لیے کچھ بھی کرنا ہے۔