
اسلام آباد (آئی پی ایس)سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق دائر صدارتی ریفرنس پر سماعت عید الفطر کے بعد تک ملتوی کر دی ہے۔ عدالت عظمی نے پاکستان تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر کو تحریری معروضات جمع کروانے کی ہدایت کردی۔
جمعہ کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے معاملہ پر سماعت کی ۔ دوران سماعت تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے ویڈیو لنک کے زریعے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ آرٹیکل تریسٹھ اے کو شامل کرنے کا مقصد ہارس ٹریڈنگ کو ختم کرنا تھا،تریسٹھ اے کی خلاف ورزی آئین کی خلاف ورزی ہے،تریسٹھ اے کے نتیجے میں ووٹ شمار نہیں ہو گا،
ووٹ کاسٹ تو ضرور ہو گا لیکن اس کو گنا نہیں جائے گا،سیاسی جماعتوں کے کردار اور اہمیت پر عدالتی فیصلے موجود ہیں، آزاد اور سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ ہولڈرز ممبر اسمبلی بنتے ہیں ، 63 اے سیاسی جماعتوں کے ممبر سے متعلق ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے اس موقع پر وکیل علی ظفر کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ووٹ شمار کرنا اور انحراف کرنا دونوں مختلف چیزیں ہیں ،کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ ہدایات نہ ہونے پر بھی رکن اسمبلی کا ووٹ شمار نہیں ہوگا۔جس پر پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے موقف اپنایا کہ پہلے سربراہ ہدایات جاری کرے گا پھر ممبران کے خلاف ڈیکلریشن جاری کرے گا۔اس دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ کیا ڈیکلریشن کی عدم موجودگی میں بھی ووٹ نہیں گنا جائے گا،اگر ووٹ گنا نہ جائے تو مطلب جرم ہی نہیں کیا،ووٹ نہ ڈالنے کی کوئی قدغن لگائی نہیں گئی،تریسٹھ اے میں بتایا گیا ہے کہ ووٹ تو کاسٹ کرلیں گے لیکن سیٹ چلی جائے گی،ووٹ کاسٹ ہونے کے بعد پارٹی سربراہ پہلے شوکاز نوٹس دے گا اور جواب لے گا،شو کاز نوٹس کے بعد ملنے والے جواب سے پارٹی سربراہ مطمئن ہو کر شوکاز ختم بھی کر سکتا ہے۔جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے اس موقع پر ریمارکس دیئے کہ ووٹ کاسٹ ہونے کے بعد ہی پارٹی سربراہ ڈیکلریشن دے گا،پارٹی سربراہ ووٹ کاسٹ ہوتے وقت بھی سپیکر کوبتاسکتا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اس دوران تحریک انصاف کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ پارلیمانی پارٹی کی ہدایت اکثریت کی ہوتی ہے،آپ کہہ رہے ہیں پینل کوڈ نہیں کہ جرم ہو گیا ہے تو لاش ملنے کے بعد ہی کاروائی ہو گی،آپ کہہ رہے ہیں کہ بھٹو دور میں شامل کیے گیے ارٹیکل 96کی طرح اقلیت کا ووٹ شمار نہیں ہو گا،قومی مفاد اور اس لعنت کو ختم کرنے کے لیے ووٹ کو نہیں گننا چاہیے،رضا ربانی اور فاروق ایچ نائیک کے دلائل مطابق پارٹی سربراہان کے بے پناہ اختیارات کو روکنے کے لیے سزا واضح نہیں۔اس دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا سوال یہ ہے کہ فیصلہ سربراہ کرتا ہے یا پارلیمانی پارٹی کرتی ہے،پارلیمانی پارٹی میں فیصلہ سازی کا کیا طریقہ کار ہوتا ہے۔ جس پر وکیل علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ کہ سیاسی پارلیمانی جماعت کا آئین ہوتا ہے،سیاسی جماعتوں میں اکثریت فیصلہ کرتی ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے علی ظفر کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ہمارے سامنے اکثر جماعتیں آپ کے موقف کے خلاف ہیں،صرف ایک سیاسی جماعت منحرف اراکین اسمبلی کے خلاف ہے،آپ کیا توقع کررہے ہیں کہ ہم اکثریت کو چھوڑ کر آپ کی بات مانیں گے،کیا سیاسی جماعت اس کینسر کا علاج خود نہیں کر سکتی،سیاسی جماعتوں کو تکلیف ہے تو علاج کریں ۔ اس دوران پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے موقف اپنایا کہ تشریح کا حق عدالت کے پاس ہے، سمجھ سکتا ہوں کہ عدالت تشریح سے آگے نہیں جانا چاہتی۔ جس پر جسٹس اعجازلاحسن نے ریمارکس دیئے کہ بڑا واضح ہے کہ قانون سازی کرنا پارلیمان کا کام ہے، تشریح کرنا عدالت کا کام ہے، آئین میں تریسٹھ اے شامل کرنے کا مقصد انحراف کے کینسر کو ختم کرنا تھا۔ پاکستان مسلم لیگ ق کے وکیل اظہر صدیق نے تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر کے دلائل اپنا تے ہوئے موقف اختیار کیا کہ آرٹیکل 63 اے تحریک عدم اعتماد کیخلاف حفاظتی دیوار ہے۔ ق لیگ کے وکیل نے میثاق جمہوریت کا حوالہ دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ مینڈیٹ کے احترام کا معاہدہ کیا گیا تھا ،عملی طور پر جو کچھ کیا گیا وہ میثاق جمہوریت کیخلاف ہے،مسلم لیگ ن کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ آج ایک گھنٹے میں دلائل مکمل نہیں کر سکوں گا۔
جس پر چیف جٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ اگلے دو ہفتے بینچ دستیاب نہیں ہوگا،چاہتے ہیں آرٹیکل تریسٹھ اے پر جلد از جلد اپنی رائے دیں، اپنے دلائل کا خلاصہ بیان کر دیں پھر دیکھیں گے۔ مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ قومی اسمبلی کی مدت پانچ سال ہوتی ہے، منحرف رکن اسمبلی کی مدت تک ہی نااہل ہو سکتا،آئین کی تشریح کا عدالتی اختیار ختم نہیں کیا جاسکتا، ماضی میں پارلیمنٹ عدالت کے اختیارات کم کرنے کی کوشش کرتی رہی،عدالت نے کبھی اپنے اختیارات پر سمجھوتہ نہیں کیا،عمران خان نے آرٹیکل تریسٹھ اے کے حوالے سے ائینی درخواست بھی دائر کی ہے، آئینی درخواست میں کوئی سیاسی جماعت یا منحرف رکن فریق نہیں، آئینی درخواست میں صرف منحرف ارکان کی تاحیات نااہلی مانگی گئی ہے۔ چیف جسٹس نے اس دوران ریمارکس دیئے کہ ریفرنس میں اٹھایا گیا سوال ہی درخواست میں بھی اٹھایا گیا ہے۔
جس پر مخدوم علی خان نے موقف اپنایا کہ ریفرنس میں پی ٹی آئی کہتی ہے کہ منحرف ارکان کا ووٹ شمار نہ کیا جائے، تحریک انصاف کی آئینی درخواست میں ووٹ شمار نہ کرنے کی استدعا نہیں کی گئی، ریفرنس سابق وزیراعظم کو عدم اعتماد سے بچانے کے لیے دائر کیا گیا تھا،عدالت نے اسمبلی بحال کرنے کا تاریخی فیصلہ دیا، فیصلہ خلاف ہی کیوں نہ ہو بغیر مزاحمت کے عمل ہونا چاہیے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ضمیر کے مطابق جو آئین کے تحت درست لگتا ہے وہ کرتے ہیں، دعا ہوتی ہے کہ ہمارے فیصلوں سے ملک میں بہتری ہو ۔ مسلم لیگ ن کے وکیل مخدوم علی خان نے مزید دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ عدالت کے سامنے کوئی مواد نہیں کہ اراکین کیوں منحرف ہوئے،رشوت لینے کے شواہد ہیں نہ ہی یہ معلوم کہ اراکین ضمیر کی آواز پر منحرف ہوئے،رکن کیوں منحرف ہوا یہ شواہد دینا اسکا کام نہیں،بعض آئینی ترامیم پر وکلاء اور عوام نے احتجاج کیا،ساتویں ترمیم میں سول اداروں کی مدد کے لیے فوج طلب کرنے کی منظوری ہوئی،سول اداروں کی مدد کے لیے آئی فوج کے اقدامات کو عدالتی دائرہ اختیار سے باہر رکھا گیا،عدالت سے رائے مانگی گئی ہے،عدالت اپنا اختیار 184/3 میں استعمال کر سکتی ہے،آرٹیکل تریسٹھ اے پارٹی سے بے وفائی روکنے کے لیے نہیں ہے،پارٹی سے وفا داری ریاست سے وفاداری سے ہٹ کرہوتی ہے۔
جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کا کام تمام آئینی سوالات کا جواب دینا ہے، جاننا چاہیں گے آرٹیکل 63 اے پر رائے کس حد تک دے سکتے ہیں، کیا عدالت صرف سوال کی حد تک آئین کی تشریح کر سکتی ہے یا اس سے ہٹ کر بھی تشریح کر سکتی ہے،ملک کو میچور جمہوریت کی طرف لیکر جانا ہوگا،مچور جمہورہت کے لئے ضروری ہے کہ قانون ساز سیر حاصل گفتگو کریں۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ عزت کا راستہ یہی ہے کہ منحرف رکن مستعفی ہو کر گھر جائے۔عدالت عظمی نے پاکستان تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر کو تحریری معروضات جمع کروانے کی ہدایت کر تے ہوئے معاملہ پر سماعت عید کے بعد تک کیلئے ملتوی کر دی ہے۔