
وزیر اعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہفتہ کی شپ 12بجے ہوئی مگر اس سے قبل تقریبا 2گھٹنے اسلام آباد اور بلخصوص وزیر اعظم ہائوس میں کیا ہوا اس حوالے سے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے بڑا دعوی کیا ہے،بی بی سی کے مطابق ہفتہ رات 9بجے وزیر اعظم ہائوس میں وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں مبینہ طور پر امریکہ سے بھیجے گئے سفارتی خط کو ڈی کلاسیفائیڈ کرنے کی منظوری دی گئی،جبکہ اجلاس میں وزیر اعظم نے کسی صورت ووٹنگ نہ کرانے کا اعلان کیا،کابینہ اجلاس میں ہی سپیکر کو وزیر اعظم ہائوس طلب کرنے کے احکامکات دیے گئے، قومی اسمبلی سپیکر اور ڈپٹی سپیکر جب ایوانِ وزیراعظم پہنچے توانہیں وزیراعظم کے دفتر کے برابر والے لانج میں انتظار کرنے کا کہا گیا۔بی بی سی کے مطابق اس دوران دو بن بلائے مہمان بھی بذریعہ ہیلی کاپٹر، غیر معمولی سکیورٹی اور چاق و چوبند جوانوں کے حصار میں وزیراعظم ہاس پہنچے اور وزیراعظم سے تقریبا پونا گھنٹہ تنہائی میں ملاقات کی۔
اس ملاقات میں کیا بات ہوئی ظاہر ہے، اس بارے میں کوئی اطلاعات دستیاب نہیں ہیں تاہم باوثوق اور معتبر سرکاری ذرائع نے جنھیں اس ملاقات کے بارے میں بعد میں معلومات فراہم کی گئیں، انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ ملاقات کچھ زیادہ خوشگوار نہیں رہی۔ وزیراعظم کے لیے ان مہمانوں کی یوں بن بلائے اچانک آمد غیر متوقع تھی۔ عمران خان ہیلی کاپٹرز کے منتظر تو تھے لیکن اس ہیلی کاپٹر کے مسافروں کے بارے میں ان کا اندازہ اور توقعات بالکل غلط ثابت ہوئیں۔بی بی سی کے مطابق ان ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعظم توقع کر رہے تھے کہ اس ہیلی کاپٹر میں ان کے نو مقرر کردہ عہدیدار وزیراعظم ہاس پہنچیں گے اور اس کے بعد وہ شور و غوغا مدھم پڑ جائے گا جو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پارلیمنٹ ہاس سے شروع ہوا تھا۔ شاید ایسا ہو بھی جاتا لیکن مسئلہ یہ ہوا کہ اس اعلی ترین برطرفی اور ایک نئی تعیناتی کے لیے جو قانونی دستاویز وزارت دفاع سے جاری ہونی چاہیے تھیں وہ جاری نہ ہو سکیں یوں اس انقلابی تبدیلی کی وزیراعظم ہاس کی کوشش ناکام ہو گئی۔
بی بی سی کے مطابق اہم عہدے پر تعینات ایک سرکاری اہلکار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اصرار کیا کہ وزیراعظم کی جانب سے شروع کیے گئے برطرفی کے ممکنہ اقدام کو قانونی طور پر روکنے کا بندوبست بھی رات ہی کو کر لیا گیا تھا۔ سرکاری ذرائع کے مطابق اگر وزیراعظم کے حکم پر برطرفی کا یہ عمل مکمل ہو بھی جاتا تو بھی اسے کالعدم قرار دینے کا بندوبست کیا جا چکا تھا۔ سنیچر کی رات اسلام آباد کی ہائیکورٹ کے تالے کھولے گئے اور چیف جسٹس اطہر من اللہ کا عملہ ہائیکورٹ پہنچا۔ بتایا گیا کہ ہائیکورٹ ہنگامی طور پر ایک پٹیشن سماعت کے لیے مقرر کی جانے والی ہے جس میں ایک عام شہری کی حیثیت سے عدنان اقبال ایڈووکیٹ نے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے بری فوج کے سربراہ کی برطرفی کے ممکنہ نوٹیفیکیشن کو عدالت میں چیلنج کیا تھا۔ اس فوری درخواست میں کہا گیا تھا کہ عمران خان نے سیاسی اور ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے بری فوج کے سربراہ کو برطرف کرنے کی سفارش کی ہے لہذا عدالت اس حکم کو بہترین عوامی مفاد میں کالعدم قرار دے۔
دوسری جانب آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ بی بی سی اردو کی شائع ہونے والی خبر سراسر بے بنیاد اور جھوٹ کا پلندہ ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ برطانوی نشریاتی ادارے کی شائع ہونے والی خبر سراسر بے بنیاد اور جھوٹ کا پلندہ ہے، عام پروپیگنڈا کہانی میں کوئی معتبر، مستند اور متعلقہ ذریعہ نہیں، یہ بنیادی صحافتی اخلاقیات کی خلاف ورزی ہے آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ جعلی کہانی میں کوئی حقیقت نہیں اور واضح طور پر منظم ڈس انفارمیشن مہم کا حصہ لگتا ہے، یہ معاملہ بی بی سی حکام کے ساتھ اٹھایا جا رہا ہے۔