تحریر : نیاز احمد نیازی
گلگت بلتستان کے معروف مزاحمتی شاعر، ادیب اور کالم نویس جناب جمشید خان دکھی کو مرحوم لکھتے ہوئے ہاتھ کانپنے لگتے ہیں دل اب تک اس بات کو ماننے سے گریزاں ہے کہ اب کبھی بھی دکھی صاحب سے ملاقات نہیں ہوپائے گی۔ ان کی شخصیت اور فن کے حوالے کچھ لکھنے میرے بس کی بات تو نہیں البتہ ادب کا ایک ادنیٰ سا طالب ہونے کی حیثیت سے کچھ بےربط خیالات دکھی صاحب کی روح سے معذرت چاہتے ہوئے قلم بند کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔
5جون 1956ء کو گلگت کشروٹ کے محی الدین صاحب کے ہاں پیدا ہونے والے جمشید خان نے ابتدائی تعلیم کشروٹ گلگت کے معروف معلم مولانا عبدالحمید سے حاصل کی۔دوسری جماعت کے 1964ءمیں ہائی سکول نمبر ایک گلگت میں داخلہ لیا۔ 1972ءمیں میڑک کا امتحان پاس کرنے کے محکمہء جنگلات میں بطور ایل ڈی سی بھرتی ہوئے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے تعلیمی سفر کو بھی جاری رکھا اور بی۔اے کی ڈگری حاصل کی۔ اپنی قابلیت اور دیانتداری کی وجہ سے 5جون 2016ءکومحکمۂ جنگلات سے بطور پبلک ریلیشن آفسیر سرکاری ملازمت سے باعزت سبکدوش ہوئے۔ شاعری کا آغاز ستر کی دہائی سے ہوا شینا شاعری سے ادبی سفر کا آغاز کیا اور بعدازاں طبیعت اردو شاعری کی طرف مائل ہوئی۔ جمشید دکھی صاحب کا ششمارحلقۂ ارباب۔ ذوق کے بانی اراکین میں ہوتا تھا اور 1995ءسے اپنی وفات 20فروری 2022ءتک بحیثیت جنرل سکیڑیری (حاذ) اپنی خدمات خوش اسلوبی سے سرانجام دیتے رہے۔ حلقۂ ارباب۔ ذوق گلگت (حاذ) کو ایک بڑی ادبی تنظیم بنانے میں دکھی صاحب کا اہم کردار رہا ہے۔ حلقے کی طرف سے دعوت ناموں سے لیکر تعزیت ناموں تک, پنڈال میں کرسیاں لگوانے سے چائے پانی کے انتظام تک, مہمانوں کو خوش آمدید کہنے سے لیکر مشاعرے اور ادبی تقاریب کی رودائید قلم بند کرنے تک تمام ذمہ داریاں تن و تنہا سرانجام دیتے تھے۔پروفیسر عثمان علی خان دکھی صاحب کے حوالے اپنے ایک مضمون میں کچھ یوں رقمطراز ہیں
” جب ہم حلقہء ارباب۔ ذوق کی بات کرتے ہیں تو جمشید دکھی حلقے کی پوشاک زیب۔ تن کئے اکیلے جلوہ گر ہوتے ہیں۔باقی کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر۔ تصویر کے مصداق ہیں”
حلقے کے صدر جناب پروفیسر محمد امین ضیا دکھی صاحب کے حوالے سے کچھ یوں فرماتے ہیں
"صدر حلقہ راقم, سنئیر نائب صدر عبدالخالق تاج اور نائب صدر خوشی محمد طارق کی حیثیت محض حیثیت ہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیجے کہ دکھی بذات۔ خود حلقہء ارباب۔ ذوق ہیں”
گلگت بلتستان کے حبیب جالب کہلانے والے جمشید خان کو خطے کے مسائل اور مسلکی فسادات نے دکھی کردیا اور اپنا تخلص بھی دکھی اختیار کرنے لگے۔ آپ کی شاعری میں جابجا انسانیت سے محبت, گلگت بلتستان سے دلی لگاؤ, گلگت بلتستان کی خوبصورتی اور امن و بھائی چارگی کے موضوعات شامل ہیں۔ تاہم ان سب سے بڑھ کر جو چیز آپ کو دیگر شعراء سے ممتاز بناتی ہے وہ آپ کا نڈر لہجہ اور مزاحمتی رنگ ہے۔سرکاری ملازم ہوتے ہوئے بھی علاقے کے ساتھ سوتلی ماں جیسا سلوک اور خطے کے ساتھ ہونے والے مظالم کی کھل کر مخالفت کی۔مقامی رنگ دکھی صاحب کی شاعری کی ایک امتیاز خصوصیت ہے۔ انہوں نے مقامی عوام کی دلچسپیوں میں برابر کا حصہ لیا ہے۔ ان کی شاعری میں صیحح معنوں میں ایک ایسے شخص کی روح نظر آتی ہے جو گہرے طور پر مقامی رنگ کا قائل ہے۔ انہیں کسی قسم کا تعصب چھو کر بھی نہیں گیا۔ انہوں نے بیک وقت تمام مسالک کے تہواروں اور دیگر مقدس دنوں پر شاعری لکھی ہے۔
قومی شناخت کے حوالے سے دکھی صاحب ہمیشہ فکرمند رہے اور بار بار حکمرانوں سے سوال کرتے رہے۔
مری دھرتی تو میری آبرو ہے
تری تصویر پہم روبر ہے
شب۔ ظلمت کا ہوگا کب سویرا
اندھیرا ہی اندھیرا چارسو ہے
پتہ سرال کا دو تو خبر لیں!
مری ماں تو بتا کس کی بہو ہے
گلگت بلتستان کے حقوق کے حوالے مقتدر حلقوں تک اپنی آواز پوری توانائی کے ساتھ پہنچاتے رہے اور اس سلسلے میں کبھی کسی سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔
غدار یہ باغباں ہے تو گل سوگوار دیکھ
یارب! مرے چمن کا زرا حال ذار دیکھ
اغیار کررہے ہیں مقدر کے فیصلے
گلشن پہ کس قدر ہے مرا اختیار دیکھ
درباری شاعری سے ہمیشہ کنارہ کش رہے اور جو بات دل میں آتی تھی اسے زبان پر لانے کے قائل تھے۔
مجھے خوابوں میں بھی اقبال یہ تعلیم دیتا ہے
کبھی بھی شاعری جمشید درباری نہیں کرنی
گلگت بلتستان میں دیرپا امن کے خواں تھے اور اپنی شاعری کے ذریعے لوگوں کو آپس میں پیار محبت سے رہنے کی تلقین کرتے رہےانسانیت کو سب سمجھنے والے جمشید دکھی تعصبات کی چھاونیاں جلانا چاہتے تھے اور بڑی حد تک انہیں اس میں کامیابی بھی ملی۔
ہندو, یہ مسلماں و نصاریٰ سے مجھے کیا
انسان ہوں میری یہی پہچان بہت ہے
مذہبی تعلیمات پر زندگی بھر خود عمل پیرا رہے ,صوم و صلوۃ کے سخت پابند تھے دین اسلام ہمیں کیا سکھاتا ہے اس حوالے سے ہمہ وقت اپنا پیغام لوگ تک پہنچاتے رہے۔شرپسندی اور انتہاپسندی کے کٹر مخالف تھے۔
تعصب سے بھرا پیغام یہ ہے
بہاؤ خون درس۔ عام یہ ہے
مسلمانوں کا جب انجام یہ ہے
میں کافر ہوں اگر اسلام یہ ہے
جنت النظیر گلگت بلتستان کی خوبصورتی یہاں کی جغرافیائی اہمیت اور اہم تاریخی مقامات کا ذکر بھی ان کی شاعری میں موجود ہے جی بی کےفلک بوس پہاڑوں, گہرے دریاؤں حسین چشموں اور جھرنوں کے بارے میں کچھ یوں فرماتے ہیں۔
ہم اپنے دیس جی بی کے حسیں پیکر میں رہتے ہیں
ذرا محل وقوع دیکھو زمیں کے سر میں رہتے ہیں
چمن کے حسن اور چشموں کے میٹھے پن سے لگتا ہے
کسی جنت میں ہم ہمسائے کوثر میں رہتے ہیں
حیاداری کا دیتے ہیں سبق کوہ و جبل مرے
کہ سر کہسار کے بھی برف کی چادر میں رہتے ہیں
دکھی صاحب کی شاعری میں عشق مجازی کے موضوعات بہت کم ملتے ہیں لیکن کہیں کہیں دل کے ہاتھوں مجبور بھی نظر آتے ہیں اور بہت احتیاط کے ساتھ اس موضوع انتہائی ادب کے ساتھ چھڑتے ہیں۔
پہلے اس سولی پہ دل رکھا گیا
پھر ترے چہرے پہ تل رکھا گیا
کیا کہیں کس ظلم کی سندان پر
ہر گھڑی عاشق کا دل رکھا گیا
ایک اور مقام پر کچھ یوں کہتے ہیں
روبرو ہوگا تکلم سوچ کر
حوصلہ ملنے کا کچھ کچھ کم رہا
سینکڑوں ملنے کے حلیے تھے مگر
پھر بھی تم سے دور اے ہمدم رہا
محبوب کی یاد ہمیشہ عاشق پر گراں گزرتی ہے یہ تلخ یادیں زندگی بھر ساتھ رہتی ہیں۔ دکھی کی یادیں بھی انہیں اکثر جھنجوڑتی ہیں اور اپنے ماضی کو یاد کرتے ہوئے کچھ یوں گویا ہوتے ہیں۔
بڑھاپے میں جوانی دیکھتا ہوں
پلٹتی زندگانی دیکھتا ہوں
مرا ماضی مجھے جھنجوڑتا ہے
میں جب تیری نشانی دیکھتا ہوں
تمہاری یاد ویرانے بھی ڈرنے نہیں دیتی
کبھی جینے نہیں دیتی کبھی مرنے نہیں دیتی
میں اپنا نام روشن دوسرے شعبوں میں کیا کرتا
مجھے تری محبت اور کچھ کرنے نہیں دیتی
مومن خان مومن نے جب یہ مشہور اپنا مشہور شعر
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
کہا تو حضرت غالب نے اپنا پورا دیوان اس شعر کے لئے مومن کو دینے کی پیش کش کی تھی دکھی صاحب نے بھی ہمیشہ محبوب کو اپنے قریب ہی پایا اور ان سے کبھی غافل نہیں رہے۔
ہوائے عشق طوفانوں کا رخ بھی موڑ دیتی ہے
کبھی شاباش دیتی ہے کبھی جھنجوڑ دیتی ہے
نہیں ہوں آشنا اے دوست تنہائی کی وحشت سے
تمہاری یاد کب مجھکو اکیلا چھوڑ دیتی ہے
بہرحال دکھی صاحب کی شاعری اور شخصیت پر ایک مضمون میں احاطہ کرنا بہت مشکل کام ہے ان پر کہیں کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ موت کا ذائقہ ہر ایک نے چکنا ہے اور اس سلسلے میں ہم سب نے اپنی اپنی باری پر یہاں جانا ہے مگر کچھ ہستیاں مر کر بھی زندہ رہتی ہیں انہی میں ایک جمشید خان دکھی ہے جو زندگی بھر خود دکھی رہ کر دوسروں کو سکھ پہنچاتے رہے۔اور جب دل و جگر میں دکھوں کی گنجائش باقی نہیں رہی تو ایک ایسے مرض میں مبتلا ہوئے جس نے آپ کے جگر کو ہی چھلنی کر کے رکھ دیا۔ یوں الفتوں کے پھول تقسیم کرنے والے یہ باغباں اصل باغ کی طرف روانہ ہوئے۔
دبستان لکھنوکے آخری نمائندہ شاعر حضرت امیر مینائی کا یہ شعر دکھی صاحب کی شخصیت پر پورا اترتا ہے کہ
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
اللہ پاک دکھی صاحب کی پاکیزہ روح کو دائمی سکون نصیب کرے اور ان کے اہل۔ چانہ سمیت تمام چاہنے والوں کو صبر کرنے کی عظیم توفیق عطا فرمائے آمین۔