
روس کے حملے کے بعد یوکرین میں تیسرے روز بھی لڑائی جاری رہی اور اب لڑائی دارالحکومت کیف کی گلیوں تک پہنچ گئی ۔یوکرین کی ملٹری کمانڈ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ روس نے بحر اسود سے کلیبر کروز میزائل داغے جبکہ یوکرین کے صدارتی دفترکے مشیر کا اپنے بیان میں کہنا ہے کہ یوکرین کے شہروں خیر سون، میکولیف اور اڈیسا کے قریب لڑائی جاری ہے۔غیر ملکی خبررساں ا دارے کے مطابق یوکرین کے دارالحکومت کیف کے وسطی علاقے میں شیلنگ جاری ہے جبکہ برطانوی میڈیا رپورٹس کے مطابق لڑائی اب دیگر شہروں سے ہوتی ہوئی دارالحکومت کیف کی سڑکوں تک پہنچ گئی۔میڈیا رپورٹس کے مطابق روس نے دارالحکومت کیف میں زولینی ائیرپورٹ اور سیوستوپول اسکوائر کے قریب رہائشی عمارت کو میزائل سے نشانہ بنایا۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کیف میں صدارتی دفتر کے سامنے بنائی گئی ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ ہم ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ادھر روس کی وزارت دفاع نے دعوی کیا ہے کہ روسی فوج نے یوکرین کے شہر ملیتو پول پر قبضہ کر لیا، روسی فوج یوکرین میں فوجی اہداف کو کروز میزائلوں سے نشانہ بنا رہے ہیں۔ یوکرین کی فوج کا اپنے بیان میں کہنا ہے کہ اب تک 3500 سے زائد روسی فوجی ہلاک اور 200 کے قریب قیدی بنائے گئے ہیں۔یوکرینی فوج کا یہ بھی کہنا ہے کہ روس کے 14 طیارے، 8 ہیلی کاپٹر اور 102 ٹینک تباہ کیے جا چکے ہیں۔دوسری جانب یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے امریکا کی جانب سے انخلا کرانے کی پیشکش مسترد کردی۔یوکرین کے صدرولادیمیر زیلنسکی نے انہیں کیف سے بحفاظت نکالنے کی امریکی پیشکش کومسترد کردیا۔یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کا کہنا تھا کہ یہاں جنگ ہورہی ہے۔ہمیں ٹینک تباہ کرنے کے لئے گولہ بارود چاہئے یہاں سے نکلنے کے لئے سواری نہیں۔اس سے قبل نامعلوم مقام سے یورپی رہنمائوں سے رابطے میں یوکرینی صدرکا کہنا تھا کہ وہ روس کا اولین ہدف ہیں ۔دوسری طرف روس نے کہا ہے کہ یوکرین نے مذاکرات کی پیشکش مسترد کردی ہے جس کے بعد فوجی کارروائی پوری قوت کے ساتھ دوبارہ شروع کردی گئی ۔روسی صدارتی محل (کریملن)کی جانب سے جاری بیان کے مطابق یوکرین نے مذاکرات کی پیشکش کو مسترد کرکے تنازع کو طول دیا ہے جس کے بعد روسی فوج نے اپنی پیش قدمی دوبارہ شروع کردی ہے۔کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ متوقع مذاکرات کے پیش نظر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے جمعے کو روس کے مرکزی فوجی دستوں کو پیش قدمی روکنے کے احکامات دیے تھے تاہم اب چونکہ یوکرین نے مذاکرات سے انکار کردیا ہے لہذا فوجیوں کی پیش قدمی دوبارہ شروع کردی گئی ہے۔خیال رہے کہ گزشتہ روز روسی فوجی یوکرین کے دارالحکومت کیف میں داخل ہوچکے تھے اور پارلیمنٹ کی عمارت سے محض 9 کلو میٹر کے فاصلے پر موجود تھے تاہم پیوٹن نے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی اور اپنے اتحادی ملک بیلاروس میں مذاکراتی وفد بھیجنے کا اعلان کیا۔گزشتہ روز ہی اپنے بیان میں پیوٹن نے کہا تھا کہ یوکرینی فوج حکومت کا تختہ الٹ دے اور یوکرینی حکومت کے نمائندوں کو دہشتگرد، نشے کے عادی اور ہٹلر کے پیروکار قرار دیا تھا۔ یوکرین کے صدر ولودومیر زیلینسکی بھی بار ہا مذاکرات کی اپیل کرتے رہے ہیں اور جب روسی فوجی کیف کے قریب پہنچے تو زیلینسکی نے پیوٹن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں ایک بار پھر روسی صدر سے کہنا چاہتا ہوں کہ یوکرین بھر میں لڑائی جاری ہے، آئیے مل کر بیٹھتے ہیں اور جانوں کے ضیاع کو روکتے ہیں۔یہ واضح نہیں کہ جب یوکرینی صدر مذاکرات کے حامی ہیں تو پھر روس کی مذاکرات کی پیشکش کیوں مسترد کی گئی۔خیال رہے کہ روس نے 24 فروری کو یوکرین پر حملہ کیا تھا اور دونوں ملکوں کا دعوی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو بھاری نقصان پہنچا چکے ہیں البتہ اس جنگ میں روس کا پلڑہ بھاری نظر آتا ہے۔