
اسلام آباد، سپریم کورٹ کے نامزد چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر اعلی عدلیہ کے ججز کو سکینڈلائز کیا جاتا ہے جس کے خلاف کچھ کرنا پڑے گا۔
منگل کو چیف جسٹس گلزار احمد کے اعزاز میں منعقدہ فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نامزد چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ججز کو سکینڈلائز کرنا غیر قانونی، غیر اخلاقی، غیر مہذب اور غیر آئینی بھی ہے۔ انھوں نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مسٹر احسن بھون ہم اس کے لیے بار سے مدد مانگیں گے، میں دہرا رہا ہوں کہ بار سے مدد مانگیں گے۔ نامزد چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا جج حضرات اپنی اصلاح کرتے ہیں اسی لیے جسٹس فائز عیسی کیس میں اقلیت اکثریت میں بدلی۔ عدالتی فیصلے کیخلاف سوشل میڈیا پر طوفان برپا گیا۔ اس کا راستہ روکنا ہوگا۔ کورٹ روم نمبر ایک میں ہونے والے فل کورٹ ریفرنس میں سپریم کورٹ کے تمام 16 ججز، اٹارنی جنرل، پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر، وکلا اور ججز کے اہل خانہ شریک ہوئے۔ فل کورٹ ریفرنس میں ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس گلزار احمد کی خدمات کے ذکر کے ساتھ ساتھ وکلا نمائندگان نے اعلی عدلیہ میں ججز کی تعیناتی سمیت اہم عدالتی امور پر خوب گلے شکوے بھی کیے۔ اپنی عدالتی ترجیحات بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کورونا کی وجہ سے زیر التوا کیسز میں اضافہ ہوا۔ اس کے لیے کوشش کریں گے کہ انصاف کی فراہمی کا نظام بہتر اور تیز ہو۔ پاکستان میں ٹیکس نیٹ میں اضافے اور بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پانے کے لیے جب بھی عدلیہ کا کردار درکار ہوگا، ہم ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ چیف جسٹس گلزار کو دو بڑے چیلنجز کا سامنا تھا جن میں ایک کورونا تھا تاہم انھوں نے اس دوران ایک دن کے لیے بھی عدالت بند نہیں ہونے دی۔ دوسرا بڑا چیلنج جسٹس فائز عیسی کے خلاف ریفرنس اور اس حوالے سے درخواستیں تھیں۔ ہم نے فائز عیسی کیس میں 60 سے زائد سماعتیں کیں اور دن رات کام کیا۔ اس وجہ سے زیر التوا کیسز کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ ان زیر التوا کیسز کو کم کرنے کے لیے ججز نے عوامی رائے کے برعکس سردیوں اور گرمیوں کی چھٹیوں میں بھی کام کیا۔ اپنے خطاب میں چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ 20 سال تک بطور جج اپنی خدمات محنت اور ایمانداری سے سرانجام دینے کے بعد آج ریٹائر ہو رہا ہوں۔ جب چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالا تو 38,680 کیسز التوا میں تھے۔ مجھے خوشی ہے کہ میں نے بحیثیت چیف جسٹس 4 ہزار 392 کیسز کا فیصلہ سنایا۔ میرے دور میں مجموعی طور پر 27 ہزار 426 کیسز کے فیصلے ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ عدلیہ میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال پر زور دیا۔ کراچی اور کوئٹہ رجسٹریز میں بار رومز کی تزئین کروائی۔ سپریم کورٹ میں خاتون جج کی تقرری سے نئی تاریخ رقم ہوئی۔ قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی میں پولیس ریفارمز پر کام کیا گیا۔ فاٹا انضمام کے بعد خیبر پختونخوا میں عدالتوں اور ججز میں اضافہ کیا گیا۔