بیجنگ،چینی صدر شی جن پھنگ نے کہا ہے کہ دنیا آج ایک صدی کی ان دیکھی گہری تبدیلیوں سے گزر رہی ہے۔ یہ تبدیلیاں محض کسی ملک یا خطے تک محدود نہیں ہے بلکہ گہری اور عظیم تبدیلیاں ہے۔ انہی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ حالیہ وبا نے دنیا کو ابتری کے ایک نئے دور میں داخل کر دیا ہے۔ وبا کو کیسے شکست دی جائے؟ وبا کے بعد کی دنیا کیسے تشکیل دی جائے؟ یہ اس وقت دنیا بھر کے لوگوں کی مشترکہ تشویش سے جڑا بڑا مسئلہ ہے،یہ ایک فوری نوعیت کا حل طلب مسئلہ بھی ہے جس کا ہمیں جواب دینا چاہیے۔
پیر کے روز ورلڈ اکنامک فورم کے بانی اور ایگزیکٹو چیئرمین کلاز شواب کی دعوت پر بیجنگ سے ورلڈ اکنامک فورم 2022 کے ورچوئل اجلاس میں شرکت کی اور اہم خطاب کیا۔ یہ شی جن پھنگ کی رواں برس پہلی اہم کثیر الجہتی سفارتی تقریب میں شرکت بھی ہے۔اس سے قبل چینی صدر ورلڈ اکنامک فورم جسے ڈیووس فورم بھی کہا جاتا ہے، سے دو مرتبہ خطاب کر چکے ہیں۔ جس میں انہوں نے دنیا کو "اقتصادی عالمگیریت” اور "کثیرالجہتی” کے حوالے سے چین کے خیالات اور تجاویز سے روشناس کروایا ، جسے رائے عامہ کی جانب سے نمایاں پزیرائی ملی ہے۔ شی جن پھنگ نے ورلڈ اکنامک فورم 2022 کے ورچوئل اجلا س سے خطاب میں نشاندہی کی کہ دو ہفتوں بعد شیر کا نیا چینی قمری سال شروع ہو جائے گا۔ چینی ثقافت میں شیر بہادری اور طاقت کی علامت ہے ۔ آج بنی نوع انسان کو درپیش شدید چیلنجز کے تناظر میں ہمیں مزید طاقتور اور مضبوط ہونا چاہیے، آگے بڑھنے کی راہ میں درپیش مختلف رکاوٹوں کو بہادری سے عبور کرنا چاہیے، وبائی صورتحال کے شدید اثرات کو دور کرنے کے لیے اپنی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے، معاشی اور اقتصادی ترقی کے لیے بھرپور جدوجہد کرنی چاہیے اور سماجی بحالی اور ترقی کے لیے بنی نوع انسان کی امیدوں کو پروان چڑھانا چاہیے۔شی جن پھنگ نے اپنے خطاب میں نشاندہی کی کہ عدم ترقی کی صورت میں دنیا زوال پزیر ہو گی ، عالمی گورننس آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے ہٹے گی ۔ دنیا ہمیشہ متضاد تحریکوں میں ترقی کر تی ہے ۔ پوری تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انسانیت نے مختلف آزمائشوں اور بحرانوں پر قابو پا کر عروج پایا ہے ۔ صدر شی نے مزید کہا کہ ہم تاریخی طویل مدتی ترقی کے جامع تجزیے اور تبدیلیوں کے باریک مشاہدے سے بحرانوں کو مواقع میں بدلیں،بدلتی ہوئی صورتحال میں ایک نیا نقطہ آغاز کریں ، اور مشکلات اور چیلنجوں پر قابو پانے کے لیے ایک مضبوط قوت جمع کریں۔انہوں نے کہا کہ حقائق ایک بار پھر ظاہر کرتے ہیں کہ عالمی بحران کی ہنگامہ خیز لہروں میں مختلف ممالک 190 سے زائد چھوٹی کشتیوں پر نہیں بلکہ مشترکہ تقدیر والی ایک بڑی کشتی کے مسافر ہیں۔ چھوٹی کشتیاں ہوا اور لہروں کا مقابلہ نہیں کر سکتیں، صرف بڑے جہاز ہی طوفانی لہروں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔شی جن پھنگ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اقتصادی عالمگیریت دور حاضر کا رجحان ہے۔ جب ایک بڑا دریا سمندر کی جانب بڑھتا ہے تو اسے ہمیشہ مخالف دھاروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن کوئی بھی مخالف دریا ، بڑے دریا کو مشرق کی جانب جانے سے نہیں روک سکتا ہے۔ طاقت اسے آگے بڑھنے میں مدد دیتی ہے، مزاحمت اسے مضبوط بناتی ہے۔ اگرچہ بہت سارے مخالف رجحانات آئے ہیں لیکن اقتصادی عالمگیریت کی سمت کبھی نہیں بدلی اور نہ ہی بدلے گی۔ دنیا کے تمام ممالک کو حقیقی کثیرالجہتی پر عمل کرنا چاہیے، دیواریں کھڑی کرنے کے بجائے گرانی چاہیے ، تنہا پسندی کے بجائے کھلا پن، ڈی کوپلنگ کے بجائے انضمام، اور کھلی عالمی معیشت کی تعمیر کو فروغ دینے پر اصرار کرنا چاہیے۔شی جن پھنگ نے اس بات پر زور دیا کہ دنیا میں پرامن ترقی اور باہمی سودمند تعاون ہی صحیح راستہ ہے۔ مختلف ممالک اور تہذیبوں کو ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے مل کر ترقی کرنی چاہیے، اور باہمی سودمند تعاون کے لیے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مشترکہ بنیاد تلاش کرنی چاہیے۔ ہمیں تاریخ کے عمومی رجحان کے مطابق چلنا چاہیے، بین الاقوامی نظام کو مستحکم کرنے کا عہد کرنا چاہیے، پوری انسانیت کی مشترکہ اقدار کو آگے بڑھانا چاہیے، اور بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کو فروغ دینا چاہیے۔ ہمیں تنازعات کے بجائے مشاورت پر عمل کرنا چاہیے، اخراج کے بجائے جامعیت پر عمل کرنا چاہیے، اور ہر طرح کی یکطرفہ پسندی، تحفظ پسندی، اور ہر قسم کی تسلط پسندی اور طاقت کی سیاست کی مخالفت کرنی چاہیے۔صدر شی جن پھنگ نے اس بات پر زور دیا کہ چینی معیشت کی مجموعی ترقی کی رفتار اچھی ہے۔گزشتہ سال چین کی جی ڈی پی میں تقریباً 8 فیصد اضافہ ہوا ہے، جس سے اعلیٰ ترقی اور کم افراط زر کے دوہرے اہداف حاصل ہوئے۔ ملکی اور بیرونی اقتصادی ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے باعث زبردست دباؤ کے باوجود مضبوط لچک، وافر صلاحیت اور طویل مدتی بہتری کے ساتھ چینی معیشت کے بنیادی اصولوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ہمیں چین کی اقتصادی ترقی کے مستقبل پر کامل بھروسہ ہے۔ شی جن پھنگ نے پرزور الفاظ میں کہا کہ چین مشترکہ خوشحالی کی راہ پر گامزن رہے گا ۔ سب سے پہلے ایک "کیک” کو بڑا بنایا جائے گا اور اس کے بعد مناسب نظام کے ذریعے ” کیک ” کی بہتر تقسیم کی جائے گی ، تاکہ تمام لوگ ترقی کے ثمرات سے مزید منصفانہ طور پر زیادہ سے زیادہ مستفید ہو سکیں۔انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ معیشت کی ترقی کبھی بھی وسائل اورماحول کو ختم نہیں کر سکتی ہے اور نہ ہی ماحولیاتی تحفظ معاشی ترقی میں کوئی رکاوٹ ہے۔ چین اس تصور پر قائم ہے کہ سرسبز پہاڑ اور پانی انمول اثاثہ ہیں۔ چین پہاڑوں، دریاؤں، جنگلات، کھیتوں، جھیلوں، گھاس اور ریت کے مربوط تحفظ اور منظم انتظام کو فروغ دے رہا ہے، ماحولیاتی تہذیب کی تعمیر کو آگے بڑھا رہا ہے، آلودگی کی روک تھام اور کنٹرول کو مضبوط بنانے اور لوگوں کے معاش اور زندگی کے ماحول کو بہتر بنانے کے لئے بھر پور کوشش کر رہا ہے ۔شی جن پھنگ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ڈیووس دنیا میں سرمائی کھیلوں کا ایک خوش نما مقام ہے۔ بیجنگ سرمائی اولمپکس اور پیرا اولمپکس شروع ہونے والے ہیں۔ چین دنیا کے لیے ایک سادہ، محفوظ اور شاندار اولمپک گیمز پیش کرنے کے لیے پر عزم ہے۔ بیجنگ سرمائی اولمپکس اور پیرا اولمپکس کا نعرہ "مستقبل کے لیے ایک ساتھ” ہے۔ آئیے ہم ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر بھرپور اعتماد کے ساتھ مستقبل کے لیے ایک ساتھ رہیں .