
اسلام آباد ہائی کورٹ میں نیول فارم اور نیول سیلنگ کلب کے خلاف سنگل بنچ کے فیصلے کے خلاف سابق ایڈمرل ر ظفر عباسی کی انٹراکورٹ اپیل پر سماعت ہوئی ،اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل خصوصی بنچ نے سماعت کی ،سابق ایڈمرل ظفر محمود عباسی کی جانب سے اشتر اوصاف جبکہ نجی ریسٹورنٹ سے سردار تیمور اسلم عدالت پیش ہوئے۔وکیل درخواست گزارنے موقف اختیار کیا کہ میرا موکل سابق ایڈمرل رہیں ہیں، میں نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا، میرے موکل کے بارے میں کہا گیا کہ میں نے حلف کی خلاف ورزی کی، وکیل درخواست گزار نے کہا کہ وفاقی حکومت کو میرے خلاف کارروائی کا حکم دیا گیا، سنگل رکنی بنچ فیصلے میں کہا گیا کہ سابق ایڈمرل اور دیگر متعلقہ افسران کے خلاف فوجداری کارروائی کرے۔سابق ایڈمرل ظفر محمود عباسی کے وکیل اشتر اوصاف نے سنگل رکنی بینچ کا فیصلہ عدالت کو پڑھ کر سنایا،وکیل درخواست گزار نے موقف اپنایا کہ سنگل رکنی بینچ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے، فیصلے میں کہا گیا کہ سابق چیف آف نیول سٹاف ایڈمرل ظفر محمود عباسی نے حلف کی خلاف ورزی کی، درخواست گزارکے وکیل نے موقف اپنایا کہ سابق چیف آف نیول نے غیر قانونی عمارتوں کا سنگ بنیاد رکھا ہے، کہا گیا کہ نیشنل پارک کی زمین پر نیول کلب، نیول فرامز بنائیں گئے، پاکستان نیوی کو سیلنگ کلب اور فارم کی زمین ایکوائر نہیں جبکہ خریدی گئی۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ بتائیں جہاں فارمز بنائیں گے وہ زمین کس کے نام خریدیں ہیں ؟ ۔وکیل درخواست گزارنے کہا کہ نیول فارمز کی زمین نیول ڈائریکٹ کے زریعے خریدی گئی۔عدالت نے استفسار کیا کہ کیا اسلام آباد ہائی کورٹ ڈائرکٹ کوئی زمین خرید سکتی ہے؟ ،پاکستان نیوی وزارت دفاع کے ماتحت ہے، فیڈریشن ہی زمین خرید سکتی ہے، نیول فارمز کیسے خریدے گئے؟ اور کس مقصد کیلئے خریدے گئے؟ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ انوائرمنٹل رپورٹ آئی ہے مگر اسکا کہیں ذکر ہی نہیں۔جسٹس عامر فاروق نے استفسارکیا کہ سیلنگ کلب کی زمین بھی خریدی گئی ؟ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ سیلنگ کلب کی زمین وزیر اعظم نے 1993 میں نیوی کو دی تھی۔عدالت نے کہا کہ نیول فارمز اور نیوی سیلنگ کلب کے بنے ہیں ؟ وکیل نے بتایا کہ نیول سیلنگ کلب 1994 میں حکومت پاکستان کی اجازت سے بنے ہیں۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے وکیل سے مکالمہ کیا کہ آپ کچھ تو بتائیں تاکہ ہم دیکھ لیں کہ سنگل رکنی بینچ میں ایسا کچھ غلط ہے۔عدالت نے وکیل اشتر اوصاف کو تمام دستاویزات عدالت میں جمع کرانے کی ہدایت کی ۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ سیکرٹری کابینہ ڈویژن کو رپورٹ جمع کرنے کا حکم دیا گیا تھا، اسکا کیا بنا؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مجھے اس بارے میں کوئی معلومات نہیں، اس بارے ہدایات لوں گا۔وکیل اشتر اوصاف نے کہا کہ پرسوں تک سی ڈی اے عدالتی فیصلے پر ایکشن نہ لے لے۔جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپکو لگتا ہے کہ ظفر محمود عباسی کو گرفتار کر لیا جائے گا، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل موجود ہیں ان کو بلا لیتے ہیں،سنگل بنچ نے فیصلہ وزیراعظم اور وفاقی کابینہ کے سامنے رکھنے کا حکم دیا تھا۔عدالت نے کہا کہ سیکرٹری کابینہ ڈویژن کو فیصلہ کابینہ کے سامنے رکھنے کا حکم دیا تھا۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ کیا سیکرٹری کابینہ ڈویژن نے عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کیا، اگر سیکرٹری کابینہ ڈویژن نے عمل نہیں کیا تو آئندہ سماعت پر پیش ہوں۔عدالت نے کیس کی سماعت 19 جنوری تک کے لئے ملتوی کردی۔