
کراچی آرٹس کونسل میں گلگت سے تعلق رکھنے والے بروشو (بروشسکی بولنے والے)نے کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اپنی نوعیت کی اس پہلی کانفرنس میں بروشسکی بولنے والوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ کانفرنس میں زبان کی تاریخ، حال اور مستقبل کے حوالے سے سیرحاصل گفتگو کی۔ کراچی میں مقیم بروشسکی بولنے والے شعرا نے اپنا کلام سنایا۔ بروشسکی فوک کہانیاں سنائی اور فنکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔دو پینل ڈسکشنز ہوئی۔پہلے نمبر بروشسکی زبان وادب اس پینل میں ماہر لسانیات ڈاکٹر محمد عیسی، ریسرچر شہناز ہنزائی، بروشو ڈوڈوک شامل تھے جبکہ دوسرے پر ڈیجیٹل ایرا اور بروشسکیاس پینل میں رضوان قلندر (ریسرچر اور ایکٹیویسٹ(منہاج موسوی استاد اور علی احمد جان (صحافی و شاعر) گفت سے آئے بزرگوں نے فوک کہانیاں سنائیں۔ظفر اقبال نے نصاب تعلیم اور مادری زبان کی اہمیت پر بات کی۔بروشسکی فوک فنکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔جموں کشمیر میں بولی جانے بروشسکی کے بارے میں ڈاکٹر صدف منشی نے آن لائن گفتگو کی۔پروگرام کے منتظمین علی احمد جان، مجیب شیرالیاٹ، قیزل اور مطلوب حسین نے مطالبہ کیا کہ بروشسکی سمیت دیگر مادری زبانوں کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔