تحریر : وسیم اکرم
سانحہ مری پر اگر غور کریں تو گلگلت بلتستان کےلیے بہت بڑا سبق دے چکا ہے۔ایک دفعہ نہیں مری میں جب بھی کوئی سانحہ پیش آتا ہے.گلگلت بلتستان کے مقامی باشندوں کو بہت گہرا اور سوچنے پر مجبور کر دینا والا سبق دیتا ہے۔۔آج سے کئی سال پہلے جب مری والے زمینیں فروخت کرکے پیسوں سے مزے لے رہے تھے اور ان کو کہا جا رہا تھا کہ مری میں ترقی ہو رہی ہے آپ لوگوں کو زمینوں کے بدلے پیسے بھی دئیے جا رہے ہیں اور نوکری بھی دی جارہی ہے۔اب مری والوں کو اور کیا چاہیے۔اس طرح اور بھی کئی سبز باغ دیکھائے گئے تھے۔جو اس وقت یعنی چند سال تک سچ ہوئے مگر اس کے بعد جو ہوا وہ بیانک ہے۔ ایک کہاوت ہے۔چار دن کی چاندنی پھر اندھیرا۔جو اندھرا چھا گیا ہے وہ اتنا خوفناک ہے جو آج تک پیچھا نہیں چھوڑ رہا ہے۔وہ جو گناہ کئی سال پہلے اپنی زمینیں فروخت کر کے کر چکے ہیں۔ وہ گناہ آج مری والوں سے بدلہ کحچہ اس طرح لے رہا ہے کہ آج پوری پاکستان بلکہ پوری دنیا کے لوگ ان کو بدعائیں دے رہیں اور اکثر جذباتی لوگ گالیاں تک دے رہے ہیں۔کئی لوگ ان کو خود غرض تو کئی لوگ ان کو جہنمی قرار دے رہے ہیں۔اور بھی طرح طرح کے لقابات سے نواز رہے ہیں۔
چند سوالات جو ان لوگوں سے جو کہہ رہے ہیں کہ مری والوں نے ان کو ہوٹل کا کمرہ نہیں دیا۔ان کو گاڑی کے کے ٹائر پر لگانے والی چین مہنگا دیا ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ جن لوگوں نے وہاں مصنوعی مہنگائی پیدا کی ہے یہ مری والے ہے ہی نہیں۔یہ تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہوٹل بنایا ہے وہ پاکستان کے دیگر علاقوں سے یہاں مری میں آکر مری والوں کو لالچ دے کر ان سے ان زمینیں خرید کر ان کے زمینوں پر ہوٹلز بنائے ہیں۔کبھی مری والے جو مقامی تھے وہ تو بچارے کب کے غیر مقامی ہوچکے ہیں اور غیر مقامی جو آج مری والے بند چکے ہیں ان کے ہوٹل کے باہر چوکیدار ہیں یا پھر ہوٹل میں برتن دھو رہے ہیں۔یا جو ایک عد اگر ہے بھی تو وہ اپنی بلڈنگ کرایہ پر دے کر کرایہ لے رہا ہے۔یہ جو مصنوعی مری والے ہیں۔جن کے اندر کا انسان مر چکا ہے اور یہ صرف پیسے کے پوجاری ہیں۔ان کا واستہ پیسوں کے ساتھ ہے۔اگر کوئی انسان مرتا ہے تو مرے۔اس سے ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے
اور حکومت کی بات کی جائے تو یہ تو ویسے بھی غریب کےلیے ہی ہے۔امیر اور اس طرح کے لوگ تو حکومت کے لاڑلے ہیں۔یہ قانون سے بالاتر ہیں۔اگر حکومت ہوتی تو یہ سانحہ پیش ہی نہیں آتا ۔اس لیے حکومت کی بات نا کی جائے تو ہی بہتر ہے۔مجھے یقین ہے کہ اگر مری کا مقامی باشندہ کبھی بھی اتنا بے حس نہیں ہوتا سکتا ہے کہ انسان گاڑی میں مر رہا ہوگا اور وہ ہوٹل کا کمرہ مہنگاہ کر کے نہیں دیتا۔
اب یہ صورت حال گلگلت بلتستان میں پیدا ہوا رہا ہے۔غیر مقامی لوگ زمینیں خرید رہے ہیں۔اور مختلف ہوٹلز بنا رہے ہیں۔اگر یہ صورت حال جاری رہی تو چند سال بعد گلگت بلتستان میں مری سے بھی سنگین صورت حال ہوگی۔غیر مقامی لوگ زمینیں خریدینگے اور ہوٹلز بناتے جائینگے۔اللہ نہ کرے کل کو اگر گلگلت بلتستان میں اس طرح کا موسمی خرابی یا کوئی مسلہ پیدا ہوگا تو یہاں بھی انسانیت مرچکی ہوگی کیونکہ جو انسان تھے وہ تو اپنی زمینیں فروخت کر کے کہیں عیاش زندگی گزار رہے ہونگے یا پھر ان ہی ہوٹلز میں چوکیدار ہونگے یا برتن دھو رہے ہونگے۔اور جن کے پاس انسانیت نہیں ہوگی صرف اور صرف پیسا ان کا خدا ہوگا وہ لوگ یہاں کاروبار کر رے ہونگے۔اور مصنوعی مہنگائی پیدا کر کے لوگوں سے پیسے بٹور رہے ہونگے۔بدعائیں گالیاں اور طرح طرح کے لقابات سے گلگلت بلتستان والوں کو پکارا جائے گا۔اور اس وقت غیر مقامی مقامی ہونگے اور مقامی تو غیرمقامی ہو چکے ہونگے۔ اس لیے اس زمین کو فروخت کرنے سے پہلے ایک دفعہ سانحہ مری کو دیکھ لیں اور اس پر ضرور سوچے۔اور پھر فیصلہ کریں۔آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہماری زمینوں کی حفاظت فرمائے۔آمین۔