اہم خبریںپاکستانتجارت

منی بجٹ کی کاپی آئی پی ایس نیوز پر، تفصیلات کیلئے لنک پر کلک کریں

اسلام آباد ، وفاقی حکومت کی جانب سے گزشتہ ہفتے منی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا جا چکا ہے جبکہ آج منگل کو سینیٹ میں پیش کیا جائے گا، منی بجٹ کی منظوری سے گاڑیاں، دوائیں، ڈبل روٹی، ریسٹورنٹ کا کھانا ،بیکری آئٹم، موبائل فون، بچوں کے دودھ، ڈبے والی دہی، پنیر، مکھن، کریم، دیسی گھی، مٹھائی اور مسالا جات ،درآمدی نیوز پرنٹ، اخبارات، جرائد، کاسمیٹکس، کتابیں، سلائی مشین، امپورٹیڈ زندہ جانور اور مرغی سمیت 150اشیا مہنگی ہوں گی،مِنی بجٹ میں تقریبا ڈیڑھ سو اشیا پر سیلز ٹیکس بڑھانے کی تجویز دی گئی ہے، موبائل فونز پر ٹیکس 10 سے بڑھا کر 15 فیصد کرنے ، الیکٹرک کاروں پر ٹیکس 5 فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے ۔

تفصیلات کے مطابق منی بجٹ کے تحت 144 اشیا پر ٹیکس لگے گا جو یا تو جی ایس ٹی سے مکمل طور پر مستثنی ہیں یا ان پر5فیصد سے12فیصد ٹیکس عائد ہے۔ اب ان پر 17 فیصد سیلز ٹیکس عائدکرنے کی تجویز دی گئی ہے ۔ان اشیا پر 17 فیصد سیلز ٹیکس لگانے سے ٹیکس وصولی 352ارب روپے سے کہیں زیادہ ہوگی کیونکہ بہت سی اشیا پر پہلی بار ٹیکس عائد کیا جائے گا اور ان سے حاصل ہونے والے ٹیکس تخمینے کا ایف بی آرکو اندازہ نہیں ہے۔منی بجٹ میں موبائل فون کالز پر انکم ٹیکس ریٹ10 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کرنے سے مزید 7ارب حاصل ہونگے۔ شیرخوار بچوں کیلئے دودھ کی تیاری کیلیے استعمال ہونے والے درآمدی خام مال پر زیرو ریٹنگ ٹیکس واپس لیکر اس پر بھی 17 فیصد سیلز ٹیکس تجویز کیا گیا ہے جس سے ریونیو میں نو ارب روپے اضافہ ہوگا۔ اس مد میں ٹیکس آمدن کا تخمینہ 15 ارب لگایا گیا ہے۔شیرخوار بچوں کی اشیا کی مد میں بھی سیلزٹیکس لگایا گیا ہے اور اس سے بھی 6 ارب ریونیو حاصل ہوگا۔ ڈیوٹی فری شاپس کی اشیا پر بھی17 فیصد سیلز ٹیکس تجویز کیا گیا ہے ،بریڈ تیار کرنے والی بیکریوں، ریسٹورنٹس، فوڈ چینز اور دکانوں پر 17 فیصد ٹیکس تجویز کیا گیا ، جس سے5 ارب روپے حاصل ہوں گے تاہم روٹی، نان، چپاتی، شیرمال بنانے والے تندور بدستور مستثنی رہیں گے۔میس میں تیار اور سرو کیے جانے والے کھانے، تیار شدہ کھانے او رمٹھائیاں تیار کرنے والے ہوٹلز، کیٹرررز، دکانوں، ریسٹورنٹس پر7.5 فیصد سے بڑھا کر17 فیصد کر نے کی تجویز ہے جس سے ہوٹلنگ مہنگی ہوجائے گی۔درآمد شدہ سبزیوں پر 7 ارب روپے ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ ریٹیل پیکیجنگ میں فروخت نہ ہونے والی سرخ مرچوں پر ٹیکس لگے گا۔ ملنگ انڈسٹری کیلئے اناج اور مصنوعات پر 5 ارب روپے ٹیکس عائد کیا جائے گا اور چاول، گندم، گندم اور میدہ کے آٹے کی مقامی سپلائی مستثنی رہے گی۔ ماچس پر بھی17 فیصد کے حساب سے ٹیکس لگے گا۔ڈیری پراڈکٹس، سوسیجز، مرغی کا گوشت اور اسکی دیگر مصنوعات جو کہ کسی برانڈ نام یا ٹریڈ مارک کے تحت ریٹیل پیکنگ میں فروخت ہوتی ہیں ان پر بھی 17 فیصد ٹیکس عائدہوگا۔ برانڈ نام کے تحت خوردہ پیکنگ میں فروخت ہونے والے فلیورڈ دودھ، پر ٹیکس کی شرح دس فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد کر دی جائے گی جس سے ایک ارب روپے ریونیو ملے گا۔ دہی، پنیر، مکھن، دیسی گھی، دودھ اور کریم پر بھی ٹیکس 10 فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد کر دیا جائے گا۔ ڈیری مصنوعات سے متعلق مشینری اور آلات پر 5 فیصد کے بجائے اب 17 فیصد ٹیکس لگے گا۔موبائل فونز پر مقررہ شرح کے مقابلے میں 17فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ خوردہ دکانوں سے کی جانے والی سپلائیز جو کہ ایف بی آر کے کمپیوٹرائزڈ سسٹم کے ساتھ مربوط ہیں جن پر فی الحال 10% ٹیکس عائد ہے اب 16% ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ منجمد تیار یا محفوظ ساسیجز پر ٹیکس کی شرح 8 فیصد سے بڑھ کر 17 فیصد ہو جائے گی غیر ملکی حکومت یا تنظیم کی جانب سے تحفہ یا عطیہ کے طور پر موصول ہونے والی اشیاپر 17 فیصد ٹیکس عائد کیا جائے گا۔قدرتی آفت کی صورت میں موصول ہونے والی تمام اشیا کی درآمد پر بھی ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ غیر منقولہ تحائف کے طور پر ڈاک کے ذریعے درآمد کیے گئے سامان پر 17 فیصد ٹیکس عائدکرنے کی تجویز دی گئی ہے ۔درآمد شدہ نمونے، مانع حمل ادویات اور لوازمات پر ٹیکس سے 200 ملین روپے ملیں گے۔ سلائی مشینوں پر 17 فیصد ٹیکس لگے گا۔ زندہ جانوروں اور زندہ مرغیوں کی درآمد پر 17 فیصد ٹیکس عائد کیا جائے گا اور اس سے 700 ملین روپے کے محصول حاصل ہوں گے تاہم مقامی سپلائی اس سے مستثنی رہے گی۔کھیت کی تیاری کے آلات، بیج اور پودے لگانے، آبپاشی، نکاسی آب، اور زرعی کیمیکل کی تیاری، کٹائی، تھریشنگ کے آلات اور فصل کے بعد ہینڈلنگ کے آلات پر ٹیکس 5 فیصد سے بڑھ کر 17 فیصد ہو جائے گا۔ پولٹری سیکٹر کی مشینری پر جی ایس ٹی 7 فیصد سے بڑھ کر 17 فیصد، ملٹی میڈیا پراجیکٹس پر 10 فیصد سے بڑھ کر 17 فیصد ہو جائے گا، لیتھیم آئرن بیٹری پر ٹیکس 12 فیصد سے بڑھ کر 17 فیصد ہو جائے گی۔چاندی اور سونے پر جی ایس ٹی 1 فیصد سے بڑھ کر 17 فیصد اور جیولری آرٹیکلز پر 17 فیصد ہو جائے گا۔ توانائی کے قابل تجدید ذرائع جیسے سولر اور ونڈ، آبپاشی کے آلات پر بھی ٹیکس لگے گا۔ آئل سیڈز کی درآمد پر ٹیکس کی شرح 5 فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد کر دی جائے گی، کوئلے کی کان کنی سے متعلقہ BMR سسٹم کی مشینری اور آلات ، گیس پروسیسنگ پلانٹس اور آئل اینڈ گیس فیلڈ پراسپیکٹنگ، پلانٹ، مشینری، کانکنی کے آلات، کوئلے کی کان کنی کی مشینری، تھر کول فیلڈ کے لیے درآمد کیے جانے والے آلات پر 17 فیصد جی ایس ٹی لگے گا۔ایفلوئنٹ ٹریٹمنٹ پلانٹس اور سولر انرجی کے ساتھ استعمال کی اشیا پر 12 ارب روپے کے ٹیکس لگائے جا رہے ہیں۔ 12 ارب روپے اضافی ریونیو حاصل کرنے کے لیے پلانٹ اور مشینری کی درآمد پر ٹیکس کی شرح 10 فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد کر دی جائے گی۔ حتی کہ پی او ایس مشین کی درآمد پر 17 فیصد ٹیکس عائد کیا جائے گا ۔ برآمد شدہ سامان جو ایک سال کے اندر درآمد کیا جاتا ہے اس پر 3 ارب روپے کے ٹیکس عائد ہوں گے۔موبائل فون کے مقامی مینوفیکچررز کی طرف سے موبائل فون کی تیاری کے لیے پلانٹ اور مشینری کی درآمد پر 17% جی ایس ٹی لگے گا۔ سمندر پار پاکستانیوں اور سیاحوں کی جانب سے درآمد کیے جانے والے ذاتی ملبوسات اور سامان، پر بھی ٹیکس لگے گا۔زیرو ریٹڈ سیکٹر سے بھی سیلز ٹیکس چھوٹ مکمل ختم کئے جانے کا امکان ہے۔ سیلز ٹیکس 17 فیصد سے کم والی اشیا پر بھی سیلز ٹیکس 17 فیصد تک کئے جانیکا امکان ہے جبکہ مخصوص شعبوں کو حاصل ٹیکس چھوٹ بھی ختم ہو سکتی ہے تاہم کھانے پینے کی اشیا اورادویات پر ٹیکس چھوٹ برقرار رہے گی، لگژری اشیا کی درآمد اوردرآمدی گاڑیوں پر اضافی ٹیکس عائد کرنے کی سفارش ہے، ٹیکس وصولی ہدف 5829 ارب روپے سے بڑھا کر 6 ہزار 100 ارب کرنے کی تجویز ہے۔ پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس ریفائنری سٹیج پر لاگو ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker