اسلام آباداہم خبریںعلاقائی

کنٹونمنٹ ایریاز سے سکولوں کی بے دخلی کیخلاف دھرنا،فیصلے پر نظرثانی کا مطالبہ

اسلام آباد،ملک بھر کے 42کنٹونمنٹ ایریاز سے نجی تعلیمی اداروں کی بے دخلی کے خلاف نیشنل پریس کلب کے باہر جاری دھرنے کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نجی تعلیمی اداروں کی ملک گیر تنظیموں کے رہنماوں نے مطالبہ کیاہے کہ سکولوں کی بے دخلی کے فیصلہ پر نظرثانی کی جائے اور کہا ہے کہ ایک ملک میں دو قانون قابل قبول نہیں ہے، کینٹ کے علاقوں میں غریب اور متوسط طبقہ کے بچے پڑھتے ہیں، غریبوں پر تعلیم کے دروازے بندکرنا انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے۔

ان خیالات کا اظہار آل پاکستان پرائیویٹ سکولز اینڈ کالجز ایسوسی ایشن کے مرکزی صدر ملک ابرار حسین نے پیر کے روزیہاں منعقدہ پریس کانفرنس میں کیا۔ آل پاکستان پرائیویٹ سکولز فیڈریشن کے مرکزی صدر کاشف مرزا، فیڈرل بورڈ کے ممبر BOGمحمد اشرف ہراج، صوبہ پنجاب کے صدر الیاس کیانی،پرائیویٹ ایجوکیشن نیٹ ورک ایبٹ آباد کے صدر نقیب اللہ جدون،جنرل سیکرٹری راجہ قدیر اقبال،سینئر نائب صدر روہتاس خان،کوآرڈینیٹر زاہد اسلام تنولی جبکہ حویلیاں سے کوآرڈینیٹر اکمل جیلانی سمیت دیگر عہدیدار بھی ان کے ہمراہ موجود تھی۔ ملک ابرار حسین کاکہنا تھاکہ ملک بھر کے 42 کنٹونمنٹ ایریاز سے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بے دخلی کے خلاف نیشنل پریس کلب کے باہر احتجاجی کیمپ لگایا ہواہے۔عدالتی حکم کے بعد نجی تعلیمی اداروں نے ازخود کمرشل ایریاز میں منتقلی شروع کردی ہے لیکن اب ان اداروں کو سربمہر کرتے وقت فریقین کا موقف تک نہیں سنا گیا۔عدالتی حکم کے بعد متاثرہ فریق کو سنا جانا چاہیے تھا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں کیا گیا۔کنٹومنٹ بورڈ یا متعلقہ اداروں کی جانب سے ہمارے ساتھ کوی رابطہ نہیں کیا گیا۔کورونا وبا سے متاثرہ تعلیمی اداروں کے لیے اس دوران یہاں سے اچانک منتقلی ممکن نہیں تھی،کیونکہ سکول بند بھی تھے اور مالی مسائل کابھی شکار رہے ہیں۔ اس عمل سے 15ہزار تعلیمی ادارے ختم ہو جائیں گے جس سے 38لاکھ بچوں کا مستقبل تاریک اور تدریسی عمل تباہی کاشکار ہوجائے گا۔ان کا کہنا تھاکہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے ہمیں نہیں نکالا جاسکتا۔ چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل ہے کہ وہ اس مسئلے کو سنیں اور اس کابہتر حل نکالیں۔آل پاکستان پرائیویٹ سکولز فیڈریشن کے صدرکاشف مرزا کا کہنا تھاکہ پاکستانی آئین کے مطابق بچوں کو تعلیمی حق انکے دروازے پر ملے گااوریہ حق آئین کے آرٹیکل 25 نے دیا ہے،آئین کے 24 آرٹیکل کے مطابق تعیلم اور صحت کے سرگرمیوں کو کچھ نہیں کہا جائے گاکیونکہ آئین پاکستان اس کی گارنٹی دے رہا ہے۔ انہوں نے بتایاکہ سندھ میں دس ہزارکے قریب سکولوں کو بند کردیا گیاہے قبل ازیں کوروناکی وجہ سے 18000(اٹھارہ ہزار)سکول پہلے یہ بند ہوچکے ہیں۔اب کینٹ ایریاز سے ہزاروں سکول بند کرنے کی بات کی گئی ہے حالانکہ ان ایریاز میں شاپنگ مال اور دیگرکمرشل سرگرمیاں جاری ہیں۔ان سکولوں کے ساتھ سات لاکھ اساتذہ کا روزگار وابسطہ ہے۔آج سے پچیس سال پہلے ملک میں مجموعی نجی تعلیمی ادارے 1 لاکھ 52 ہزار تھے حالیہ تعلیم دشمن پالیسیوں کی وجہ سے یہ تعداد اب دوبارہ وہی یعنی ایک لاکھ 25 ہزار باقی رہ گئی ہے۔اس وقت ملک میں اڑھائی کروڑ سے زائد بچے آوٹ آف سکول ہیں۔انہوں نے سوال کیا کہ کیا اس ملک میں تعلیم حاصل کرنا گناہ ہے؟۔تعلیمی اداروں کو بند کرنے کے بجائے ان کو سرپرستی دی جائے۔ہمیں امید ہے وزیراعظم ہمارے مطالبات مانیں گے۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں لیکن تعلیم کے دروازے بند کیے جارہے ہیں۔ ان کا کہنا تھاکہ ارباب اختیار ہم پر شفقت فرمائیں اور بچوں کو تعلیمی حق سے محروم نہ کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker