سیدخالدگردیزی نے اپنی تحریر میں لکھا ہے کہ نیشنل سیکیورٹی ورکشاپ بلوچستان(8) کے آفیشلزاور فیلوز کے ہمراہ ہم تین دن میں کراچی۔گوادراورپھر تربت کی طرف سے ایرانی سرحد کو دیکھ کر واپس کوئٹہ پہنچے تولگاتارسفر اورمختلف اداروں کی پریذنٹیشنزکی وجہ سے شدیدتھکاوٹ کاشکارہوگئے۔اگر یہ سفر اورکام بائی روڈ ہوتاتوایک ہفتے سے زیادہ وقت درکارہوتا کیونکہ کوئٹہ سے صرف تربت اورگوادر تک پہنچنے کے لئے 12 سے18 گھنٹے کا سفر ہے جب کہ وقت کی کمی کے باعث ہم بلوچستان کے قدرے بہترعلاقے زیارت۔سبی۔پنجگور وغیرہ دیکھ ہی نہیں پائیں گے۔پاکستان کے دفاع اورمعیشت کے حوالے سے انتہائی اہم صوبے میں سیکوریٹی واقعی جان جوکھوں کا کام ہے جو دفاعی ادارے سرانجام دے رہے ہیں۔تقریبا 21 سو کلومیٹر سرحد پر باڑلگائی جاچکی ہے۔تربت سے ہم چارگھنٹے روڈ پرسفرکر کے پاک۔ایران سرحد پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ اس علاقے میں بجلی۔ پٹرول اوراشیا خوردونوش بھی اگرایران سینہ آئیں تو مقامی لوگوں کاگذارانہیں۔پہلے سرحد کھلی ہونے کی وجہ سے آمدورفت عام تھی لیکن اب چھوٹے پیمانے پر ٹریڈ کیلئے پاک ۔ایران اورافغانستان سرحد پر باقاعدہ مارکیٹیں بنائی جا رہی ہیں۔معدنیات سے بھرے سنگلاخ پہاڑوں اور ریگستان میں پانی سب سے بڑا مسئلہ ہے جس کے حل کیلئے ڈیمز اور نہریں بنائی جارہی ہیں۔معدنیات سمیت گوادر میں گہرے سمندر کی وجہ سے اس صوبے اور پاکستان کے لئے سی۔پیک واقعی گیم چینجر منصوبہ ہے اس لئے چومکھی لڑائی اور بین الاقوامی سازشیں بھی اسی صوبے میں زیادہ ہیں۔