اہم خبریںپاکستان

شخصی بنیادوں پر قانون سازی کیلئے حکومت کا ساتھ نہیں دے سکتے ، متحدہ اپوزیشن  

 اسلام آباد(آئی پی ایس )متحدہ اپوزیشن نے حکومت کو انتخابی اصلاحات پر غور اور اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے مسلم لیگ(ن)کے دور حکومت میں بنائی گئی کمیٹی کی بنیاد پر نئی کمیٹی تشکیل دینے کی تجویز دیدی۔اپوزیشن کی سٹیئرنگ کمیٹی نے سپیکر کی جانب سے قائد حزب اختلاف شہباز شریف کو لکھے گئے خط پر تفصیلی غور کے بعدجوابی خط لکھا دیا۔سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصرکو لکھے گئے جوابی خط میں کہا گیا ہے کہ 25 جولائی 2014 کو تشکیل کردہ پارلیمانی کمیٹی نے 117 اجلاس کے بعدمتفقہ طورپر انتخابی اصلاحات منظور کیں،پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں پر مشتمل کمیٹی انتخابی اصلاحات کے پورے پیکج کو زیرغور لائے اور انتخابات (ترمیمی) بلز2021 سمیت انتخابی اصلاحات کا پیکج اتفاق رائے سے تیار کرے،پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کو بھجوائے گئے بل کمیٹی برائے قانون سازی میں زیرغور لائے جائیں،اپوزیشن سمجھتی ہے کہ قومی اہمیت کے امور پر اتفاق رائے درکار ہے پارلیمانی طریقہ کار اور روایات کو اپنایا جائے۔اپوزیشن کی سٹیئرنگ کمیٹی نے الیکشن کمیشن ممبران کی تقرری کیلئے پارلیمانی کمیٹی ارکان میں تبدیلی اور حکومت کی جانب سے ایم کیو ایم اور ق لیگ کی کمیٹی میں نمائندگی ختم کرنے پر بھی شدیدتحفظات کا اظہار کیا اور اس معاملے پر مسلم لیگ(ق) اور ایم کیو ایم کے ساتھ بھی رابطہ کر نے کا فیصلہ کیا ہے ۔کمیٹی نے نیب سے متعلق آرڈیننس پر بھی تحفظات کیا اور اسے مسترد کردیا۔اتوار کو اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے الیکشن اصلاحات سمیت دیگر قانون سازی پر بنائی گئی اسٹیئرنگ کمیٹی کا ورچوئل اجلاس ہوا ،جس میں مسلم لیگ(ن)کی جانب سے شاہد خاقان عباسی،سردار ایاز صادق، خواجہ سعد رفیق ،مریم اورنگزیب اور شزہ خواجہ فاطمہ،پیپلزپارٹی کی جانب سے یوسف رضا گیلانی،شازیہ مری ،شیری رحمان،جے یو آئی (ف)کی جانب سے کامران مرتضیٰ اور شاہدہ اختر علی نے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔پارلیمنٹ میں متحدہ اپوزیشن کی سٹیئرنگ کمیٹی کے اہم اجلاس میں سپیکر قومی اسمبلی کے قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف کو لکھے گئے خط پر تفصیلی غور کیا گیا اورمتحدہ اپوزیشن کی سٹیئرنگ کمیٹی کے اجلاس میں سپیکر کے خط کا جواب لکھاگیا۔ متحدہ اپوزیشن سٹیئرنگ کمیٹی نے سپیکر قومی اسمبلی کو جوابی خط لکھ دیا اور سپیکر کو خط میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قانون سازی سے متعلق اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔سپیکر قومی اسمبلی کو سٹیئرنگ کمیٹی کے لکھے گئے جوابی خط میں کہا گیا ہے کہ سپیکرقومی اسمبلی نے 23 جون 2021 کو قانون سازی سے متعلق کمیٹی تشکیل دی تھی،کمیٹی نے 10 جون 2021 کو قومی اسمبلی سے منظور کردہ 21قانونی مسودات پر غور کرنا تھا،حکومت نے 21 قانونی مسودات پر قانون سازی کے لئے طے شدہ طریقہ کار پر عمل نہیں کیا۔جوابی خط میں مزید کہا گیا ہے کہ اس کمیٹی کے تین اجلاس 9 جون، 30 اگست اور9ستمبر کو منعقد ہوئے، گزشتہ 8 ہفتوں میں اس کا ایک بھی اجلاس نہیں ہوا،حکومتی ارکان کے عدم تعاون کے باعث ضابطے سے متعلق دائرہ کار کی شرائط کار کو حتمی شکل نہ دی جا سکی،اس دوران مجوزہ مسودات کی قانونی مدت پوری ہوگئی یا پھر سینٹ نے انہیں مسترد کردیا،یہ مجوزہ قانونی مسودات پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے حوالے ہوچکے ہیں۔متحدہ اپوزیشن کے جوابی خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ان حالات میں قانون سازی کے لئے تشکیل کردہ آپ کی کمیٹی کا مقصد ہی فوت ہوچکا ہے،قومی مفاد خاص طورپر عوام پر وسیع اثرات کی حامل قانون سازی اتفاق رائے اور مشاورت سے ہونی چاہئے،پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں پر مشتمل سپیکر کی تشکیل کردہ کمیٹی انتخابی اصلاحات کے پورے پیکج کو زیرغور لائے،سپیکر کی تشکیل کردہ یہ پارلیمانی کمیٹی انتخابات (ترمیمی) بلز2021 سمیت انتخابی اصلاحات کا پیکج اتفاق رائے سے تیار کرے،دونوں ایوانوں کے ارکان پر مشتمل کمیٹی اصلاحات کا جائزہ لے کر متفقہ طورپر منظوری دے۔ متحدہ اپوزیشن نے اپنے خط میں سپیکر کو تجویز دی کہ پارلیمانی کمیٹی 25 جولائی 2014 کو تشکیل کردہ کمیٹی کی بنیاد پر بنائی جائے،25 جولائی 2014 کو تشکیل کردہ کمیٹی نے 117 اجلاس کئے، متفقہ طورپر 20 نومبر2017 کو انتخابی اصلاحات منظور کیں،قومی اسمبلی سے منظور اور سینٹ سے نہ منظور ہونے اور مشترکہ اجلاس کو بھجوائے گئے بل کمیٹی برائے قانون سازی میں زیرغور لائے جائیں۔خط میں میز کہا گیا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ قومی اہمیت کے امور پر اتفاق رائے درکار ہے، پارلیمانی طریقہ کار اور روایات کو اپنایا جائے۔ذرائع کے مطابق سٹیئرنگ کمیٹی کے ورچوئل اجلاس میںحکومت کی جانب سے الیکشن کمیشن ممبران کی تقرری کیلئے پارلیمانی کمیٹی ارکان میں تبدیلی پر بھی غور کیا گیا،کمیٹی نے چیئرمین سینیٹ کی جانب سے کمیٹی ارکان کی تبدیلی کا نوٹیفیکیشن مسترد کر دیا اور کہا کہ حکومت نے جان بوجھ کر کمیٹی میں دو ایسے ارکان کو شامل کیا جو الیکشن کمیشن کو دھمکیاں دیتے رہے،ان اراکین نے الیکشن کمیشن کو آگ لگانے تک کی بات کی،یہ اراکین اب اس معاملہ پر الیکشن کمیشن میں پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ذرائع کے مطابق اپوزیشن سٹیئرنگ کمیٹی نے حکومت کی جانب سے کمیٹی میں ایم کیو ایم اور ق لیگ کی نمائندگی ختم کرنے پر بھی تحفظات کا اظہار کیا اور اس معاملے پر مسلم لیگ(ق) اور ایم کیو ایم کے ساتھ بھی رابطہ کر نے کا فیصلہ کیا گیا۔ذرائع کے مطابق سٹیئرنگ کمیٹی نے اتفاق کیا کہ حکومت چیئرمین نیب کی تقرری کے معاملہ میں آئین کی روح کی خلاف ورزی چاہتی ہے،شخصی بنیادوں پر قانون سازی کے معاملہ میں حکومت کا ساتھ نہیں دیا جاسکتا،حکومت کے ساتھ قانون کو بہتر بنانے پر بات ہوسکتی ہے بد تر بنانے پر نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker