
اسلام آباد، وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ حکومت پاکستان اور کالعدم ٹی ٹی پی مکمل سیز فائر پر آمادہ ہوچکے، جو مذاکرات کالعدم ٹی ٹی پی سے ہورہے ہیں وہ پاکستان کے آئین اورقانون کے تحت ہوں گے اور کوئی بھی حکومت پاکستان کے آئین اور قانون سے باہر مذاکرات کر ہی نہیں سکتی،مذاکرات میں ریاست کی حاکمیت اور ملکی سلامتی کو ملحوظ خاطر رکھا جائے گا،مذاکرات میں ان علاقوں کے متاثرہ افراد کو قطعی طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، ان علاقوں کے افراد کو اعتماد میں لیا جا رہا ہے، مذاکرات کی پیشرفت کو سامنے رکھتے ہوئے سیز فائر میں توسیع ہوتی جائے گی، مذاکرات میں افغانستان کی عبوری حکومت نے سہولت کار کا کردار ادا کیا۔
پیر کو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب میں وفاقی وزیر اطلاعات نے مذاکرات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ وزیراعظم عمران خان نے کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا تذکرہ کیا تھا۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات ہو رہے ہیں۔ یہ مذاکرات آئین کے تحت ہو رہے ہیں۔ اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ معاہدے کے تحت کالعدم تحریک طالبان پاکستان سیز فائر معاہدے پر آمادہ ہو گئی۔ افغان عبوری حکومت نے مذاکرات میں کردار ادا کیا۔ یہ بھی بہت خوش آئند ہے کہ پاکستان کے یہ علاقے طویل عرصے کے بعد مکمل امن کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ مذاکرات میں پیشرفت کے مطابق فائر بندی میں توسیع ہو گی۔فواد چودھری کا کہنا تھا کہ حکومت اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان مذاکرات میں متاثرہ خاندانوں کو قطعی طور پر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لہذا ان مذاکرات میں جو ان علاقوں کے افراد ہیں ان کو بھی اعتماد میں لیا جا رہا ہے۔ ریاست کی حاکمیت اور ملکی سالمیت کو یقینی بنایا جائے گا۔ یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے ترک میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کی حکومت کالعدم تحریک طالبان پاکستان میں شامل کچھ گروپوں سے بات چیت کر رہی ہے۔ اگر وہ ہتھیارڈال دیں تو انہیں معاف کیا جا سکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ بات چیت افغان طالبان کے تعاون سے افغانستان میں ہو رہی ہے تاہم بات چیت کی کامیابی کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتے۔ میرے خیال میں کچھ طالبان گروپ حکومت سے مفاہمت اور امن کی خاطر بات کرنا چاہتے ہیں۔انٹرویو کے دوران پوچھا گیا کیا افغان طالبان پاکستان کی مدد کر رہے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ اس لحاظ سے مدد ہو رہی ہے کہ یہ بات چیت افغان سرزمین پر ہو رہی ہے۔جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر ایک جانب ان کی حکومت کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے بات چیت کر رہی ہے تو تنظیم حملے کیوں کر رہی ہے تو عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ حملوں کی ایک لہر تھی۔