
اسلام آباد، حکومت کی طرف سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کیخلاف قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اپوزیشن کی طرف سے قیمتوں میں شدید احتجاج کیا گیا، شیم شیم کے نعرے اور شورشرابہ کے بعد اراکین نے واک آئوٹ کر دیا۔
جمعہ کو اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کیخلاف اپوزیشن نے پلے کارڈ اٹھا کر شدید احتجاج کیا ۔ اپوزیشن اراکین نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف پلے کارڈ اٹھا کر احتجاج کرتے ہوئے شیم شیم کے نعرے لگائے ۔نکتہ اعتراض پر مسلم لیگ (ن) کے خواجہ محمد آصف نے کہاکہ رات کے اندھیرے میں پیٹرول کا بم گرایا گیا،ریلیف پیکج کی بالکل سمجھ نہیں آئی۔ انہوںنے کہاکہ مہنگائی آسمانوں سے باتیں کررہی ہیں،حکومت کو عوام کے دکھ درد کا بالکل احساس نہیں ۔ انہوںنے کہاکہ چینی کی قیمت 160 روپے کلو ہوگئی ہے،یہ کیسی حکومت ہے کونسے وعدہ ہیں؟۔ انہوںنے کہاکہ وزیر اعظم کی چار قسم کی تقاریر سوشل میں پر چل رہی ہیں،عوام کے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔ خواجہ آصف نے کہاکہ 2018 کا الیکشن عوام کے ساتھ تاریخی دھوکا تھا،پاکستان کے عوام کی تکالیف کم کی جانا چاہئیں تھیں،یہ ایوان اس مہنگائی کا نوٹس لے،ملک کس کے حوالے کردیا گیا نوٹس لیا جائے ،کیا ہورہا ہے ملک کے ساتھ؟ ہماری ذمہ داری پارلیمان نوٹس لے۔خواجہ محمد آصف نے کہاکہ عوام کے ساتھ جورہا ہورہا ہے کیا معاہدے ہورہے ہیں ایوان میں لایا جاتا؟عوام کے لئے مہنگائی ناقابل برداشت ہوچکی ہے،ملک کے آج کے حالات اس ایوان کی ذمہ داری ہے،اس ایوان کو غیر فعال بنا دیا گیا ہے۔ انہوںنے کہاکہ چینی اور گندم کے نام پر فراڈ ہوئے ہیں ،ان فراڈز کی رپورٹس پر کیا عمل درآمد ہوا ہے؟،اس وقت ملک کے وجود کو بھی خطرہ ہے۔ انہوںنے کہاکہ یہ کل تک جو انکے ہیرو تھے آج یہ انکے ساتھ خفیہ معاہدے کرتے ہیں،جو خفیہ معاہدہ ہوا اسکے بعد حکومت کے پلے کیا رہ گیا ہے؟،ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ مہنگائی پر ایوان میں بحث کروائی جائے ،جو انکوائری ہوئی اور جو معاہدے ہوئے ان کر ایوان میں بحث کرائی جائے۔ خواجہ آصفق نے کہاکہ لوگ کہہ رہے ہیں پیٹرول 170 پر چلے جانا ہے،یہ ہمیں ڈاکو کہتے ہیں اصل ڈاکو تو حکومتی بینچز پر بیٹھے ہیں۔ ڈپٹی اسپیکر نے کہاکہ آپکا نکتہ آگیا ہے اس پر بحث کریں گے اس موقع پر ڈپٹی اسپیکر نے مائیک اکرم چیمہ کو دیا تو رانا تنویر حسین نے کورم کی نشاندھی کردی، گنتی پر کورم پورا نہ ہوا تو اجلاس کی کارروائی کورم پورا ہونے تک معطل کردی گئی، وقفے کے بعد ایک بار پھر ارکان کی گنتی کی گئی اور کورم پورا نہ ہونے کے باعث اجلاس کی کارروائی پیر کی شام چھ بجے تک ملتوی کردیا گیا ۔ سینٹ میں بھی اپوزیشن نے ملک میں بڑھتی مہنگائی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر شدید احتجاج کرتے ہوئے چیئرمین ڈائس کا گھیرائو کرلیا،ارکان کی حکومت مخالف نعرے بازی سے ایوان مچھلی منڈی کا منظر پیش کر نے لگا ۔اپوزیشن لیڈر سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ وزیر اعظم نے پہلے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی سمری مسترد کی اور قوم سے اپنے خطاب میں کہا کہ پٹرول کی قیمتیں بڑھ سکتی ہیں جس کے دوسرے روز ہی پٹرول مہنگا کر دیا گیا۔سینیٹ میں قائد ایوان سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم نے قائد حزب اختلاف سینیٹر سید یوسف رضا گیلانی اور سینیٹر مشتاق احمد کے نکتہ ہائے اعتراض کے جواب میں قائد ایوان نے کہا کہ کسی بھی حکومت کے لئے قیمتوں میں اضافہ کرنا انتہائی ناخوشگوار فیصلہ ہوتا ہے، دنیا میں تیل کی قیمتیں 100 فیصد بڑھ چکی ہیں، پاکستان میں صرف 30 فیصد کا اضافہ ہوا ہے، عالمی منڈی میں تیل کی قیمت 40 ڈالر سے 85 ڈالر برینٹ تک پہنچ گئی ہے اور دنیا میں سپلائی چین کا بحران ہے، حکومت جتنا بوجھ اٹھا سکتی ہے اٹھا رہی ہے تاکہ عوام کو قیمتوں کے اثرات سے بچایا جا سکے، 35 روپے فی لیٹر اب بھی حکومت خود برداشت کر رہی ہے، کوویڈ کے بعد دنیا میں جو صورتحال بنی ہے اور پام آئل، ایل این جی اور دیگر مصنوعات ہم درآمد کرتے ہیں اور یہ چیزیں درآمد کرنا ہماری مجبوری ہے لیکن حکومت اپنی ذمہ داریوں سے غافل نہیں ہے اور مہنگائی سے عوام کو بچانے کے لئے مختلف اقدامات کر رہی ہے، ملکی تاریخ میں سب سے بڑا 120 ارب روپے کا ریلیف پیکج دیا گیا ہے جس سے 31 ہزار روپے ماہانہ سے کم آمدنی والے 60 فیصد لوگ مستفید ہوں گے، 260 ارب روپے کے احساس پروگرام کا دائرہ کار بھی بڑھایا جا رہا ہے، 40 لاکھ خاندانوں کو بلا سود قرضے دیئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں مہنگائی کی ایک تاریخ رہی ہے اور مہنگائی کا پہلا طوفان 1970 کی دہائی میں آیا تھا لیکن ہم موجودہ حکومت مہنگائی سے عوام کو محفوظ رکھنے کے لئے ٹیکس کم کر رہی ہے، احساس پروگرام اور ریلیف پیکج دے رہی ہے، مسلم لیگ (ن) فخر سے سڑکوں اور موٹرویز کا کریڈٹ لیتی ہے لیکن اس کے دور میں 37 کروڑ روپے فی کلومیٹر کی سڑکیں بنائی گئیں، ہم نے سڑکوں کی لاگت کم کی ہے کیونکہ عوام کا پیسہ اب ایون فیلڈ اور سرے محل پر نہیں لگتا۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن میں سچ سننے کا حوصلہ نہیں ہے، 1970 کی دہائی میں پیپلزپارٹی کے دور میں راشن ڈپو ابھی تک عوام نہیں بھولے، جب اپنے من پسند لوگوں میں اشیا تقسیم کر دی جاتی تھیں۔وسیم شہزاد کی تقریر کے دور ان اپوزیشن ارکان نے چینی چور،دوا چور اور پٹرول چور کے نعرے لگائے،ارکان اپنی نشستوں سے اٹھ کر چیئرمین ڈائس کے گرد جمع ہو ئے اور شور شرابہ کرتے رہے۔چیئرمین کے منع کرنے کے باجود اپوزیشن نے نعرے بازی جاری رکھی اور ایوان سے واک آئوٹ کر دیا۔سینیٹر شیری رحمان نے سینیٹ کے کورم کی نشاندہی کی۔سینیٹ کا کورام پرا کرنے کیلئے گھنٹیاں بجائی گئی،گنتی پر ایوان میں صرف سولہ ارکان موجود تھے، کورم پورا نہ ہونے پر چیئرمین نے اجلاس پیر کی شام ساڑھے چار بجے تک ملتوی کر دیا گیا ۔