اسلام آباد،سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسی نے اہم فیصلہ سنادیا کہ کوئی عدالت یا جرگہ شرعی وراثتی جائیداد کی تقسیم کے قانون کو تبدیل نہیں کر سکتا۔ منگل کو سپریم کورٹ میں سوات میں جائیداد کی تقسیم سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ جسٹس قاضی فائز عیسی، جسٹس یحییٰ آفریدی پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ جرگے کا فیصلہ دین الٰہی سے بڑا نہیں ہو سکتا اور اس کے ذریعے دین الٰہی کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا، جائیداد کی تقسیم سے متعلق دستاویزات پر سات سالہ بچے کا انگوٹھے کا نشان لگایا گیا، 7 سالہ بچے کو تو قتل کیس میں پھانسی بھی نہیں ہوسکتی، ایسے دستاویزات کے ذریعے قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں، پاکستان میں سچ بولنے کے حالات ہیں سب کو علم ہے۔دوران سماعت وکیل درخواست گزار سے جسٹس قاضی فائز عیسی کا دلچسپ مکالمہ ہوا۔ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ عدالت علاقائی زمینی حقائق کو بھی سامنے رکھے۔جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ جس علاقے کی زمینی حقیقت کی آپ بات کر رہے ہیں وہاں تو عورت کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا، زمینی حقائق دیکھتے دیکھتے فوجی آمروں نے ملک میں مارشل لا لگا دیے اور ججوں سے جبری دستخط کرالیے، پھر کہا جاتا ہے ہم زمینی حقائق دیکھیں، سعودی عرب میں جائیداد کی تقسیم کا فیصلہ ایک دن میں ہوتا ہے، پاکستان میں جائیداد کی تقسیم کا فیصلہ ہوتے ہوتے چالیس سال لگ جاتے ہیں، جائیداد کی تقسیم کا شرعی اصول ساڑھے1400 سال پہلے طے ہو چکا ہے۔عدالت نے سوات کے حبیب اللہ مرحوم کی جائیداد کو تمام قانونی ورثا کے مابین شرعی اصول کے تحت تقسیم کرنے کا حکم دیدیا۔ سپریم کورٹ نے جائیداد کی تقسیم سے متعلق نچلی عدالتوں کے تینوں فیصلے کالعدم قرار دے دیے۔واضح رہے کہ حبیب اللہ کی 1986 میں وفات کے بعد اس کی تین بیویاں اور بچوں میں وراثت تقسیم کرنے پر اختلاف ہوا تو علاقے کے جرگے نے مختلف وارثان میں جائیداد تقسیم کرنے کا فیصلہ دیا ، وراثت نہ ملنے پر وارثان نے عدالتوں سے رجوع کیا ۔ سول کورٹ ، سیشن کورٹ اور ہائیکورٹ نے جرگے کے فیصلے کو درست قرار دیا تھا۔