اہم خبریںپاکستان

وزیر خارجہ کا دورہ کابل،افغان سر زمین کا پاکستان کیخلاف استعمال روکنے کا مطالبہ

اسلام آباد/کابل ،وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے وفد کے ہمراہ افغانستان کا ایک روزہ دورہ کیا ، جہاں پر انہوں نے فغانستان کے عبوری وزیراعظم ملا حسن اخوند سے ملاقات کی جس دوران دو طرفہ باہمی دلچسپی کے امور ،تجارتی و اقتصادی شعبہ جات میں تعاون بڑھانے اور افغان عوام کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے مختلف پہلوؤں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

اس موقع پر وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان، افغانستان میں دیرپا امن اور استحکام کا خواہاں اور انسانی بنیادوں پر افغان بھائیوں کی مدد کیلئے پرعزم ہے۔ہم دو طرفہ تجارت بڑھانے کے متمنی ہیں اور افغان شہریوں بالخصوص تاجروں کے لیے ویزہ سہولیات، نئے بارڈر پوائنٹس کا اجرا اور نقل و حرکت میں سہولت کی فراہمی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔پاکستانی وفد میں وزیر اعظم کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان محمد صادق’ سیکرٹری خارجہ سہیل محمود ،سیکرٹری کامرس صالح احمد فاروقی ، چیئرمین پی آئی اے ائیر مارشل (ر) ارشد ملک ، چیئرمین نادرا طارق ملک ،کسٹم ، ایف بی آر اور وزارت خارجہ کے سینئر افسران شامل تھے ۔کابل ائیرپورٹ پہنچنے پر افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی، افغانستان میں تعینات پاکستانی سفیر منصور احمد خان اور وزارت خارجہ افغانستان کے سینئر حکام نے پاکستانی وفدکا خیر مقدم کیا۔شاہ محمود قریشی کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے افغان عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کہا کہ ہمارے برادر،دوست اور ہمسایہ ملک پاکستان کے وفد کیساتھ افغان قیادت کی مفید گفتگو ہوئی،پاکستانی وفد کے دورہ کابل پر ان کے مشکور ہیں،امید ہے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سربراہی میں پاکستانی وفد کے دورے سے دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی اور سفارتی تعلقات مزید مستحکم ہوں گے ۔امیر خان متقی کا کہنا تھا کہ پاکستانی وفد کیساتھ تجارت،ویزا مسائل اور بارڈر پر آمدورفت میں درپیش مشکلات سے متعلق تفصیلی گفتگو ہوئی،پاکستانی وفد نے مسائل کے حل کی یقین دہانی کرائی ۔افغان عبوری وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ توقع ہے دونوں ممالک کے درمیان وزارتوں کی سطح پر بھی بات چیت کا سلسلہ جاری رہے گا،امکان ہے کہ ہمارے وفود بھی اسلام آباد جائیںگے،انہوں نے یہ بھی کہا کہ افغانوں کی بڑی تعداد پاکستان میں علاج کے لئے جاتی ہے،پاکستانی قیادت نے مریضوں اور افغان شہریوں کی آمدورفت میں سہولیات دینے کا وعدہ کیا ہے۔دورہ افغانستان کے بعد اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ طالبان سے سیکیورٹی ایشوز پر بات کی گئی ہے ان سے گزارش کی ہے کہ دنیا کے بہت سے ممالک آپ کی مدد کرنا چاہتے ہیں، ورکنگ گروپس میں ڈی جی آئی ایس آئی نے اپنے متعلقہ لوگوں سے بات کی۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ طالبان اور روس کے تعلقات میں بہتری آئی ہے لیکن وہ اپنے ممالک میں انتہاپسند گروپس کے حوالے سے تشویش کا شکار ہیں تاہم جہاں سالوں کا بگاڑ ہو وہ جلد درست ہونا ممکن نہیں، کچھ عرصہ میں پیش رفت ہوسکتی ہے وہ بین الاقوامی کمیونٹی کی خواہشات کو جانتے ہیں، طالبان کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت میں تاجک اور ہزارہ بھی شامل ہیں۔وزیرخارجہ نے کہا کہ ہمیں ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کی موجودگی پر تحفظات ہیں، سیکیورٹی تعلقات کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے، طالبان کو سوچنا چاہیے کہ پڑوسی ممالک کے ساتھ کیسے تعلقات کو بہتر بنا سکتے ہیں جب کہ ابھی کسی نے افغان حکومت کو تسلیم نہیں کیا، طالبان کو بتایا کہ کونسے اقدامات کرنے سے دنیا انہیں تسلیم کرے گی۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ طالبان کو اشتراکی حکومت، خواتین حقوق اور تعلیم اور نو سیف ہیونز کے حوالے سے آگاہ کیا، طالبان اگر ایسے سب اقدام کریں گے تو دنیا انہیں تسلیم کریں گے، پاکستان کا اکیلے تسلیم کرنا ان کے لیے فائدہ مند نہ ہوگا، افغانستان کو آئسولیٹ نہ کیا جائے ، ہم اس کوشش میں کامیاب ہیں، طالبان چین، روس، ایران میں بات چیت ہورہی ہے جو افغانستان کے لیے اچھی ہے، افغانستان میں طالبان بھی ناکام ہوئے تو مسائل بڑھیں گے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ دورہ افغانستان کے دوران افغان حکام نے دوٹوک الفاظ میں باور کرایا ہماری سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کی ہرگزاجازت نہیں دیں گے۔انہوں نے بتایا کہ ڈی جی آئی ایس آئی نے دورے میں انٹیلی جنس وفد سے ملاقات کی۔ ہماری خواہش ہے مہاجرین واپس جائیں، طالبان حکومت مالی مشکلات سے دوچارہیں، اس ماحول میں مہاجرین واپس چلے جائیں جائزتوقع نہیں ہو گی، افغانستان میں حالات نارمل ہیں، ہمیں خوف کا عالم دکھائی نہیں دیا، کابل ایئرپورٹ پربھی حالات معمول کے مطابق تھے۔ حامد کرزئی، عبداللہ عبداللہ اورگلبدین حکمت یارکے ساتھ ٹیلی فونک گفتگوبھی ہوئی ہے۔ افغان حکام کیساتھ طویل اور مفید نشست رہی، ملاقاتوں میں افغان امن، تجارت، دفاع اور نقل وحمل سے متعلقہ امور پر گفتگو ہوئی۔ افغان عبوری حکومت کے وزیراعظم ملاحسن آخوند سمیت افغان طالبان قیادت سے ملاقاتیں کیں۔ افغان کاروباری شخصیات کے لیے 5 سالہ ویزہ کی سہولت کا اختیار کابل میں پاکستانی سفارتخانے کو دیا گیا ہے، اگلی نشست 27 اکتوبر کو تہران میں متوقع ہے۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان افغانستان کی معاونت کے لیے 5 ارب روپے کی امدادی اشیا فراہم کرے گا، افغانستان میں سالوں کا بگاڑ چند ہفتوں میں ٹھیک نہیں ہو گا، سمت درست ہو تو آہستہ آہستہ پیشرفت ہوسکتی ہے، طالبان حکومت کوابھی تک دنیا میں کسی نے تسلیم نہیں کیا، افغان حکومت کی خواہش ہے ان کی حکومت کوتسلیم کیا جائے، بحیثیت خیرخواہ ہونے کے ناطے افغان حکام کو عالمی برادری کی توقعات کے بارے میں بتایا، اگرافغان حکومت عالمی برادری کی توقعات پرپیشرفت کرتی ہیں توافغان حکومت کے لیے آسانی ہوگی۔انہوں نے کہا کہ طالبان سمجھتے ہیں پاکستان ان کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے، وفود کے آنے جانے سے ماحول سازگاربنے گا، افغان، طالبان، تاجک کو میز پر بٹھا کر گفتگو کے ذریعے غلط فہمیوں کو دور کریں گے۔ افغان قیادت نے مشکل وقت میں ساتھ دینے پر پاکستان کے تعاون کو سراہا، پیدل بارڈر کراسنگ کے وقت کو 12 گھنٹے کردیا ہے، ٹریڈ کی حد تک بارڈر چوبیس گھنٹے کھلا رہے گا، 24 گھنٹے بارڈرکھلنے سے افغانستان اور پاکستان کو فائدہ ہو گا، میڈیکل، ایمرجینسی کیس والوں کو آن آرائیول ویزا دیا جائے گا، آن لائن ویزا کے اجرا سے بہت آسانی ہوئی ہے۔قبل ازیںافغانستان کے نائب وزیراعظم کی جانب سے وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے وفد کے اعزاز میں ظہرانہ دیا گیا۔ افغان عبوری حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی اور عبوری کابینہ کے اراکین کی بڑی تعداد ظہرانے میں شریک ہوئی۔افغانستان کے نائب وزیراعظم ملا عبدالسلام حنفی نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے وفد کو کابل آمد پر خوش آمدید کہا۔ وزیر خارجہ نے پرتپاک خیر مقدم اور پر خلوص میزبانی پر طالبان قیادت کا شکریہ ادا کیا۔دوسری طرف افغانستان میں تعینات پاکستان کے سفیر منصور احمد خان نے کہاہے کہ پاکستان نے طورخم بارڈر مکمل طور پر کھول دیا ہے، وزیر خارجہ اور ڈی جی آئی ایس آئی کا دورہ کابل طے منصوبے کے مطابق ہوا ،کوشش ہے کہ جلد سے جلد دونوں ممالک کے درمیان فضائی آپریشن بحال ہوجائے، پاکستان اور افغانستان کے حکام کے درمیان حالیہ ملاقات میں داعش اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے معاملات بھی زیر غورآئے ، اس میں کوئی شک نہیں کہ حالیہ دنوں میں داعش ایک دہشت گرد نیٹ ورک کے طور پر ابھری ہے ،افغان طالبان داعش کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں ، کالعدم ٹی ٹی پی ریاست پاکستان کیلئے بنیادی مسئلہ ہے ، پاکستانی وفد نے موجودہ ملاقات میں بھی افغان طالبان سے گزارش کی ہے کہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی میں مدد کی جائے ، جو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے شر پسند عناصر افغانستان کی سرزمین پر موجود ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے ، پاکستانی فلاحی اداروں نے افغانستان آ کر انسانی جانوں کی مدد کی ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker