
کوئٹہ،بلوچستان اسمبلی کا اجلاس اسپیکر میر عبدالقدوس بزنجو کی صدارت میں شروع ہوگیا ہے جس میں وزیراعلی جام کمال کیخلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی۔رکن اسمبلی سردار عبدالرحمان کھیتران نے وزیراعلی کیخلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی۔تفصیلات کے مطابق اس موقع پر عبدالرحمان کھیتران کا کہنا تھا کہ وزیراعلی کی خراب حکمرانی کے باعث مایوسی، بدامنی، بیروزگاری، اداروں کی کارکردگی متاثرہوئی ہے، وہ خود کو عقل کل سمجھ کراہم معاملات کو مشاورت کیے بغیر چلارہے ہیں۔عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ اہم معاملات کو مشاورت کے بغیر چلانے سے صوبے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایاگیا، وزیراعلی جام کمال خان اپنے طور پر صوبے کے معاملات چلارہے ہیں، مطالبہ کرتے ہیں کہ خراب کارکردگی پر وزیراعلی کوعہدے سے ہٹایا جائے۔قرارداد کے حق میں بی اے پی کے ناراض رکن سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ وزیراعلی کے خلاف فیصلہ ہوچکا ہے، ہمارے 5ارکان لاپتہ ہوگئے ہیں، آئندہ چند دنوں میں 5 مزید لاپتہ ہوجائیں گے، اس طرح وہ یہ تحریک ناکام بنالیں گے لیکن اب یہ ایوان نہیں چلے گا۔ جام کمال خان کو استعفی دے دینا چاہیے۔قائد حزب اختلاف بلوچستان اسمبلی ملک سکندر ایڈووکیٹ نے کہا کہ اکبر آسکا نی، لالا رشید ،لیلی ترین ، مہہ جبیں شیران اور بشری رند تاحال اسمبلی نہ پہنچ سکے، ہمارے لاپتہ افراد کو فوری ایوان میں پیش کیا جائے، وزیراعلی کو کہتے ہیں کہ وہ فوری طور پر مستعفی ہوجائیں۔اجلاس سے قبل وزیراعلی جام کمال خان کی جانب سے بلوچستان عوامی پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کے صوبائی وزرا ، سینیٹرز ، اراکین اسمبلی اور پارلیمنٹرینز کے اعزاز میں ظہرانہ دیا گیا، جس میں ڈپٹی اسپیکر صوبائی اسمبلی، صوبائی وزرا میر سلیم احمد کھوسہ،عارف محمد حسنی، محمد خان طور، مٹھا خان کاکڑ، عبدالخالق ہزارہ، زمرک خان اچکزئی، صوبائی مشیران نوابزادہ گہرام خان بگٹی اور سردار سرفراز خان ڈومکی سمیت سینیٹر آغا عمر احمد زئی، سینیٹر دنیش کمار اور دیگر نے شرکت کی۔اس موقع پر جام کمال نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر پراعتماد ہوں، ہم بلوچ ہیں کسی کو دعوتوں سے نہیں روک سکتے، تحریک عدم اعتماد پوری اپوزیشن کی طرف سے نہیں آئی، ساڑھے 3 سال میں اپوزیشن سے تعلقات بہت مضبوط ہوئے ہیں، ہماری اتحادی جماعتیں ہمارے ساتھ رہیں گی، یہ کیسے ممکن ہے حکومتی ارکان اپوزیشن سے مل کر تحریک عدم اعتماد لائیں؟، دیکھتے ہیں ووٹنگ 3 روز میں ہوتی ہے 7 روز میں۔خیال رہے کہ جام کمال کو عہدے سے ہٹانے کے لیے اپوزیشن کے ساتھ ساتھ حکومتی ارکان بھی ان کے خلاف ہوگئے ہیں جبکہ جام کمال نے واضح طور پرکہہ دیا ہے کہ وہ استعفی نہیں دیں گے۔