کابل ، طالبان نے عبوری حکومت کے قیام کے بعد امور مملکت چلانے کے لیے 40 نکات پر مشتمل نیا آئینی اساسی ڈھانچہ تشکیل دے دیا ہے جس کا ماخذ قرآن و سنت ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق طالبان نے ملک کا پہلا آئینی ڈھانچہ ترتیب دیدیا ہے۔ ملک کا سرکاری مذہب اسلام ہوگا جب کہ دیگر مذاہب کے پیروکار اسلامی شریعت کے تحت اپنے عقائد کی انجام دہی میں آزاد ہوں گے۔نئے آئینی و اساسی ڈھانچے میں مملکت کا نام امارات اسلامیہ افغانستان طے کیا گیا ہے جب کہ قومی پرچم سفید رنگ کا ہوگا جس پر کلمہ طیبہ تحریر ہوگا اور ملک کی سرکاری زبانیں پشتو اور دری ہوں گی۔آئینی و اساسی ڈھانچے کے مطابق ملک کی خارجہ پالیسی اسلامی شریعت کے تابع ہوگی جب کہ ترجیح بنیادوں پر اور پرامن طریقے سے پڑوسی ممالک کے ساتھ حل طلب معاملات طے کیے جائیں گے۔آئینی و اساسی ڈھانچے میں واضح کیا گیا ہے کہ افغان سرزمین کا کوئی بھی حصہ بیرونی حکومتوں کے تابع نہیں ہو گا۔ عوام کو بنیادی انسانی حقوق اور انصاف یکساں طور پر حاصل ہوں گے۔آئینی و اساسی ڈھانچے میں اتفاق کیا گیا ہے کہ کار مملکت چلانے کے لیے تمام امور کی انجام دہی قرآن اور سنت کے مطابق کی جائے گی۔علاوہ ازیں نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے افغانستان کی حزب اسلامی کے سربراہ اورسابق وزیراعظم گلبدین حکمت یار نے کہا کہ پنجشیرکے حوالے سے بھی پاکستان پرالزام لگایا گیا، وہاں کے لوگ کہتے ہیں ہم نے سرے سے کوئی جہاز دیکھا ہی نہیں، کہا گیا کہ فہیم دشتی کی موت ڈرون حملے کے ذریعے ہوئی، حالانکہ وہ آپس کی لڑائی میں مارا گیا تھا اور اس کی نعش پھینک دی گئی۔ یہاں کوئی ڈرون حملہ نہیں ہوا، اس سے صورتحال پر اندازہ لگا سکتا ہے کہ اصل صورتحال کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ پاکستان نے افغانستان میں امریکا کے پورے مشن کی حمایت کی ہے اور وزیراعظم پاکستان عمران خان آن ریکارڈ کہہ چکے ہیں کہ فیصلے سے پاکستان کو نقصان برداشت کرنا پڑا، غیر ملکی میڈیا پاکستان کا عالمی امیج خراب کر رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے واشنگٹن اسلام آبادسے خوش نہیں ہے۔ کیونکہ اسے پاکستان میں اڈے نہیں ملے تاکہ وہ افغانستان میں اپنی جنگ کو طول دے سکے۔ اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے افغانستان سے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا ہوتا رہا ہے، سی آئی اے کا چیف افغانستان آتا ہے تو شورنہیں مچایا جاتا، پاکستانی وفد آتا ہے توپوری دنیا میں شورمچایا جاتا ہے۔ یہاں سے مغرب کے دہرے معیار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے مہاجرین کواپنی زمین دی، افغانستان کی حکومت میں ایسے افراد رہے جنہوں نے پاکستان پرالزام لگائے، یہ لوگ سوویت یونین سے بھی ملے ہوئے تھے، 40 برسوں سے میڈیا بھی انہی لوگوں کے کنٹرول میں رہا۔ افغانستان میں دوسرے ممالک کے سفارتخانوں کوکھولنے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے۔ادھر فغانستان میں طالبان نے خواتین کے امور کی وزارت کے دفتر کو بند کردیا جب کہ اسکول میں ثانوی اور اعلی ثانوی تعلیم کے لیے صرف لڑکوں کو اسکول آنے کی اجازت کا اعلان کیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز اور تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وزارت خواتین امور کی خواتین ملازمین دفتر کے باہر کھڑی ہیں اور طالبان سے کام کی اجازت دینے کا مطالبہ کر رہی ہیں تاہم طالبان دفتر پر بنے محکمے کے Logo اور نام کو مٹا دیتے ہیں۔وزارت امور خواتین کے دفتر کو اخلاقی پولیس کے دفتر میں تبدیل کردیا گیا ہے جہاں اسلامی قوانین اور خواتین پر عائدپابندیوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانے والی پولیس کا عملہ اپنا کام کریں گے۔اسی طرح گزشتہ روز بھی وزارت تعلیم کی جانب سے جاری اعلامیہ میں ثانوی اور ہائی سکول میں صرف لڑکوں کو اسکول آنے کی اجازت دی گئی ہے یعنی لڑکیاں صرف پرائمری اسکول میں آسکتی ہیں سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری میں ان پر پابندی ہوگی۔دوسری طرف طالبان کے ترجمان اور افغانستان کے نائب وزیر اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد نے لڑکیوں کے اسکول کھولنے سے متعلق اہم اعلان کیا ہے۔ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھاکہ افغانستان میں لڑکیوں کے اسکول جلد کھول دیے جائیں گے۔ان کا کہنا تھاکہ حکومتی عہدیدار لڑکیوں کی علیحدہ تعلیم کے انتظامات کررہے ہیں جبکہ لڑکیوں کیلئے علیحدہ کلاسز اور اساتذہ کا انتظام کیا جارہا ہے۔ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھاکہ انتظامات مکمل ہونے پر تفصیلات میڈیا اور عوام کو بتائی جائیں گی۔