کالم /بلاگز

سید علی شاہ گیلانی کی زندگی پر ایک مختصر تحریر حصہ اول

‏‏تحریر: حکم خان
‏‎@khanhukam1
‏سید علی گیلانی کی داستان حیات خود تحریک آزادی کے آغاز سے بھی پہلے سے شروع ہوئی ہے۔13جولائی 1931کو جب سری نگر سنٹرل جیل کے احاطے میں غاصب ڈوگرہ مہاراجہ سے بغاوت پر اکسانے کے مقدمے میں گرفتار نوجوان عبدالقدیر کے مقدمے کی سماعت کے لیے جمع ہونے والے ہجوم پر ڈوگرہ سامراج کی پولیس کی فائرنگ سے 22فر زندان اسلام نے جام شہادت نوش کرتے ہوئے تحریک آزادی کشمیر کا افتتاح کیا تھا ۔
سید علی گیلانی ابھی دو ہی برس کے تھے کہ 1931ء میں سری نگر سنٹرل جیل کے احاطے میں 22 فرزندان توحید نے اپنے خون سے تحریک آزادی کشمیر کے پہلے باب کی رسم افتتاح ادا کی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ تحریک دورو نزدیک تک پھیل گئی ۔ سید علی گیلانی نے شعور کی آنکھ کھولی تو آزادی کی تحریک جوبن پر تھی ۔ ڈوگرہ استعمار کے خلاف بغاوت کے الاؤ ہر سو دھک رہے تھے۔
تکبیر کے نعرے تھے اور آزادی کے ترانے تھے ۔علی گیلانی بھی اپنا ننھا ہاتھ بلند کرکے توتلی زبان میں نعرۂ تکبیر بلند کرتا تھا ۔آزادی ان کو گھٹی میں پلائی گئی ۔ بچپن اور لڑکپن کا دورانہوں نے اس تحریک میں ایک کارکن کی حیثیت سے شریک ہو کر گزارا۔ سید علی گیلانی نے ابتدائی تعلیم پرائمری سکول بوٹنگو ، سوپور سے حاصل کی ۔ میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول سوپور سے کیا۔ اس کے بعد آپ نے حصول تعلیم کے لئے لاہور کا سفر اختیار کیا اور اسلامیہ کالج لاہو ر سے ادیب عالم کا امتحان پاس کیا ۔ادیب فاضل اورمنشی فاضل کی ڈگریاں کشمیر یونیورسٹی سری نگر سے حاصل کیں ۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد آپ ریاست کے محکمہ تعلیم سے بطور استاد وابستہ ہو گئے۔
1947ء کا سال جہاں برصغیر پاک وہند کے باشندوں کے لیے آزادی کا پیغام لایا اور ہندوستان اور پاکستا ن کے نام سے دو بڑی طاقتیں آزاد حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھری وہاں یہ سال بد قسمت ریاست جموں و کشمیر کے عوام کے لیے ایک نئی ، تازہ دم اور سفاک تر غلامی کا پیش خیمہ ثابت ہوا آزادی کی منزل ،جس کے لیے ایک عرصے سے اسلامیان وطن قربانیاں دیتے آئے تھے ، اندھیروں میں گم ہو گئی تو نو عمر سید علی گیلانی پر اس سانحے کا بڑا گہرا اثر ہوا۔
کیا مقبوضہ کشمیر اب دوسرا اندلس بنے گا؟کیا اب یہاں سپین کی تحریک دہرائی جائے گی؟کیا بخارا اور سمر قند کی طرح یہاں سے بھی اسلام اور مسلمانو ں کو دیس سے نکال دیا جائے گامستقبل کے پردوں میں چھپے ہوئے ان مہیب خطرات کی آہٹیں سید علی گیلانی کے اندر کی دنیا کو زیرو زبر کئے ہوئے تھیں ۔ان خطرات کا مقابلہ کون کرے گا؟ جوانی کی دہلیز پر کھڑے سید گیلانی کے لیے یہ اضطراب انگیز سوال چیلنج بن گیا ۔ وطن کے جن اصحاب اخلاص پر نگاہ رکتی تھی اور اس طوفان کے آگے بند باندھنے کی امید کی جا سکتی تھی ، وہ ریاست سے ہجرت کرنے پر مجبورہوچکے تھے ۔ان میں چودھری غلام عباس اور میر واعظ مولوی محمد یوسف شاہ جیسی قد آور سیاسی شخصیات بھی شامل تھیں ۔
اسی دوران تحریک اسلامی جموں و کشمیر کے درویش صفت امیر مولانا سعد الدین سے ان کی ملاقات ہوئی ، یوں سید علی گیلانی اس قافلہ عشاق میں شامل ہو گئے ، جسے جماعت اسلامی کہا جاتا ہے ۔جماعت اسلامی میں شمولیت کے ساتھ ہی سید علی گیلانی کو اپنے تمام سوالوں کا جواب مل گیا وہ جماعت اسلامی کی انقلابی دعوت اور اسلامی نظام حیات کے قیام کے لیے دیوانہ وار سرگرم عمل ہو گئے ۔
میں بھارت کے ساتھ کشمیر کے الحاق کو نہیں مانتا۔میں بھارتی سامراج کا باغی ہوں اور اس بغاوت کے جرم میں مجھے پھانسی کے پھندے کو بھی چومنا پڑا تومیں اسے اپنی سعادت سمجھوں گا۔
جناب سید علی گیلانی کی یہ جرأت اور بیباکی بھارتی حکمرانوں کے لیے ناقابل برداشت ہوتی چلی گئی اور انہیں گرفتار کرکے پس دیوار زندان پہنچا دیا گیا۔ جہاں وہ ایک سال ایک ماہ تک قید رہے اس کے بعد تو جیل سید علی گیلانی کا مسکن، ہتھکڑی زیور اور زنجیر کی کھنکھناہٹ آزادی کا ترانہ بن گئی ۔اور ان کی سیاسی زندگی کا ہر دوسرا دن جیل میں گزرنے لگا۔
یہ عرصہ گیلانی صاحب کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوا۔مولانا حکیم غلام نبی کے علم و تقوی نے آپ کی زندگی میں گہرے نقوش ثبت کئے۔اسی اسیری کے عرصے میں آپ کے والد گرامی کی وفات ہوئی، لیکن آپ کو والد ماجد کا آخری دیدار کرنے کی اجازت بھی نہ دی گئی۔وہ اپنے محبوب باپ کے جنازے کو کندھا بھی نہ دے سکے۔ (جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker