تحریر: حبیب الرحمٰن خان
#حبیب_خان
@HabibAlRehmnkhn
جب کوہی غریب گاڑی خرید لے تومحلے والے مٹھائی کھانے تو آتے ہیں لیکن ساتھ میں یہ جستجو بھی ہوتی ہے کہ وہ اتنے پیسے کہاں سے لایا یہ امیر کیسے ہوگیا گویا کہ غریب کی گاڑی خریدنا بھی عذاب جاں ہے اور وہ حکومتی اداروں کو تو چھوڑ اپنے ہی طبقے کو جواب دہ ہو جاتا ہے اور اپنا طبقہ اس کے جواب سے لاجواب ہونے کے باوجود اس نکتے کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتا کہ بات تو اس کی معقول ہے لیکن پھر بھی وہ پیسے کہاں سے لایا۔
اور کسی غریب کی بیماری کو اس کی موت تک پہنچانے میں اہم کرداراس وقت ادا کیا جاتا ہے کہ جب اس کی تیمارداری کے لیے جاکر چائے پانی اور کھانے کی مد میں اس کی کمر توڑ دی جاتی ہے۔
مجھے ایک واقعہ یاد آیا ہے یہ کوہی پچیس سال پرانی بات ہے کہ میرے ایک جاننے والے کا بیٹا بیمار ہو گیا اسے اتائی ڈاکٹروں کے پاس لے جانے اور زیارات کے چکر لگانے کے بعد جب اسے اچھے اسپتال لے جایا گیا تو معلوم ہوا کہ اسے کینسر ہے۔ اور جس کے اخراجات تقریباً دس لاکھ بنتے ہیں ایک دن اس بچے کی تیمارداری کے لیے ایک صاحب تشریف لائے جن کے بارے میں مجھے بتایا گیا تھا کہ موصوف کے پاس تقریباً پندرہ سے اٹھارہ ارب روپے ہیں۔ وہ انتہائی قیمتی گاڑی میں تشریف لائے بچے سے پیار کیا اور جاتےوقت بچے کو ایک ہزار روپے دے گئے۔ یہ رقم انھوں نے بچے کے والدین کی حالت کو مدنظر رکھ کردیے۔
بچہ اور اس کے والدین انھیں تشکر کی نگاہ سے مسلسل دیکھ رہے تھے کیونکہ اس وقت غریب کے لیے ہزار روپے بہت بڑی چیز تھے۔ میں پاس کھڑا یہ منظر دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ یہ شخص اگر اپنی حیثیت کے مطابق انھیں رقم دے دیتا تو بچے کا علاج ہو جاتا اس نے سامنے والے کی حیثیت دیکھی۔ خیر بچہ کچھ عرصے بعد فوت ہو گیا۔ وقت چلتا رہا اس صاحب حیثیت شخص کے دونوں بیٹے شادی کرکے الگ ہوگئے ۔ کچھ عرصے بعد اس شخص کو فالج ہو گیا تو دونوں بیٹے کچھ عرصہ تو باپ کے پاس آگئے لیکن پھر واپس چلے گئے اور والد کو ملازموں کے سپرد کر دیا۔ پھر کبھی کبھار آتے اور رفتہ رفتہ پوزیشن یہ ہو گئی کہ فون پر معلومات لے لیتے۔ دس سال بیمار رہنے کے بعد وہ شخص چل بسا۔ بیٹے آئے جنازہ کیا پھر قل ہوئے اور ملازمین کو تنخواہ دے کر فارغ کر کے اس گھر کو تالا لگایا اور چل دیے۔ ایک دن میں قبرستان کے پاس سے گزر رہا تھا تو دیکھا کہ اس کینسر والے بچے کا باپ اس صاحب ثروت شخص کی کچی قبر سے گھاس وغیرہ کاٹ رہا تھا۔ میں یہ دیکھ کر سوچنے لگا کہ وہ بیٹے جو اس کی موت کے بعد اربوں کے وارث بنیں ان سے یہ شخص جسے زندگی میں صرف ایک ہزار ملا بازی لے گیا۔
کاش یہ مرحوم اس کے بچے کا علاج کرادیتا تو رب العالمین کے راضی ہونے کے ساتھ ساتھ یہ پورا خاندان اس کے فالج کے دنوں اس کی نہ صرف تیمارداری کرتا بلکہ شاید اس کے خاندان کا بھی مشکور ہوتا افسوس کہ اس شخص کے دولت کے ساتھ اولاد بھی کام نہ آہی۔ اگر یہ اپنی دولت کا صحیح استعمال کرتا تو شاید اولاد کے ساتھ ساتھ دیگر لوگ بھی اسکی زندگی میں اس کے ساتھی ہوتے۔