اہم خبریںپاکستان

پی ایم ڈی اے کیخلاف پارلیمنٹ کے اندر اور باہر شدید احتجا ج ،تاریخ میں پہلی بار پریس گیلری کو تالے لگ گئے، اپوزیشن کا واک آئوٹ

اسلام آباد، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے موقع پر پی ایم ڈی اے کیخلاف پارلیمنٹ کے اندر اور باہر شدید احتجا ج کیا گیا ،ملکی تاریخ میں پہلی بار صدر مملکت کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے موقع پر پریس گیلری اور لائونج بند کر دئیے گئے اور صحافیوں کو کیفے ٹیریا تک محدود رکھا گیا،صدرمملکت کے خطاب کے دوران اپوزیشن ارکان نے پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی، ملک میں مہنگائی و بے روزگاری اور حکومت کی ناقص پالیسیوں کے خلاف شدید احتجاج کیا ،اپوزیشن ارکان نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر حکومتی پالیسیوں کیخلاف نعرے درج تھے،اپوزیشن ارکان نے سپیکر کی ڈائس کا گھیرائو بھی کیا اور شدید نعرے بازی کی۔بعد ازاں پوری اپوزیشن نے احتجاجاً صدر مملکت کے خطاب کے دوران اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا اور ایوان سے واک آئوٹ کر گئے اور پارلیمنٹ ہائوس کے باہر صحافیوں کے دھرنے میں ان سے اظہار یکجہتی کیلئے پہنچے،صحافیوں نے پریس گیلری بند کرنے کیخلاف بھی پارلیمنٹ کے گیٹ اور سپیکر اسد قیصر کے آفس کے باہر دھرنا دیا اور پریس گیلری بحال کرو ،پریس گیلری پر مارشل لاء نامنظور کے نعرے لگائے۔
پیر کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی زیر صدارت ہوا۔پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وزیراعظم عمران خان، قائد حزب اختلاف قومی اسمبلی شہبازشریف، قائد حزب اختلاف سینیٹ یوسف رضا گیلانی ،شاہد خاقان عباسی،پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹوزرداری ، چاروں صوبوں کے گورنرز اور ورزائے اعلیٰ کے علاوہ آزاد کشمیرکے صدر، سروسز چیفس اور مختلف ممالک کے سفیر بھی مہمانوں کی گیلری میں موجود تھے۔ اجلاس کے آغاز میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے سپیکر سے بات کرنے کی اجازت مانگی مگر سپیکر نے اپوزیشن لیڈر کو مائیک دینے کے بجائے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو خطاب کی دعوت دے دی، جس پر اپوزیشن ارکان نے احتجاج شروع کر دیا، اپوزیشن ارکان نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے، جن پر پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی، ملک میں مہنگائی و بے روزگاری اور حکومت کی ناقص پالیسیوں کے خلاف نعرے درج تھے، پلے کارڈز پر لوگوں کا معاشی قتل بند کرو،قلم پر حملہ نامنظور،پی ایم ڈی اے کالاقانون نامنظور،چھین رہا ہے کپتان ،روٹی ،کپڑا اور مکان،میڈیا کی زبان بندی نامنظور، آٹا، چینی چوروں کی سرکار نہیں چلے گی، نہیں چلے گی کے نعرے درج تھے۔اپوزیشن ارکان نے سپیکر کے ڈائس کے سامنے آ گئے اور سپیکر ڈائس کا گھیرائو کیا، اس دوران صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اپنا خطاب جاری رکھا،اپوزیشن ارکان کی جانب سے حکومت مخالف شدید نعرے بازی بھی کی گئی، اپوزیشن ارکان نے حکومت کی جانب سے مشترکہ اجلاس کے دوران پریس گیلری بند کرنے پر بھی شدید احتجاج کیا، اپوزیشن ارکان کی جانب سے لاٹھی گولی کی سرکار، مک گیا تیرا شو نیازی گو نیازی، آٹا، چینی چوروں کی سرکار نہیں چلے گی، نہیں چلے گی،غنڈہ گردی کی سرکار نہیں چلے گی،نہیں چلے گی۔ بعد ازاں پوری اپوزیشن نے احتجاجاً صدر مملکت کے خطاب کے دوران اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا اور ایوان سے واک آئوٹ کر گئے اور پارلیمنٹ ہائوس کے باہر صحافیوں کے دھرنے میں ان سے اظہار یکجہتی کیلئے پہنچے۔ قبل ازیں ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے موقع پر صحافیوں کی جانب سے پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے خلاف ممکنہ احتجاج کے پیش نظر حکومت نے پریس لائونج اور ایوان سے ملحقہ پریس گیلری بند کر دی، جس کی وجہ سے صحافیوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کی جانب سے صحافیوں کو کیفے ٹیریا تک محدود کر دیا گیا جس پر صحافیوں نے پارلیمنٹ ہائوس کے مین گیٹ اور سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے آفس کے سامنے دھرنا دیا،صحافیوں نے پریس گیلری بحال کرو ،پریس گیلری پر مارشل لاء نامنظور کے نعرے لگائے۔پارلیمنٹ ہائوس کے اندر صحافیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے اپوزیشن رہنمائوں مولانا اسد محمود، شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، مریم اورنگزیب پہنچے۔ اس موقع پر جے یو آئی (ف) کے رہنما مولانا اسعد الرحمان نے کہا کہ اس حکومت کو مسلط کرنا سازش ہے، اس ملک کی سیاست کوتباہ کرنے اور معیشت کو تباہ کرنے چاہتی ہے، اس حکومت کا مقصد اداروں کو تباہ کرنا ہے، عالمی اور علاقائی سطح پر پاکستان کے امیج کو تباہ کرنا ہے تا کہ پاکستان موثر طریقے سے کوئی کردار ادا نہ کر سکے،حکومت نے خارجہ پالیسی پر ہتھیار ڈال دیئے، پڑوس ممالک سے تعلقات بدترین ہو رہے ہیں، اپوزیشن آپ کے ساتھ مکمل تعاون کا اعلان کرتی ہے۔ مسلم لیگ نون کے رہنما احسن اقبال نے کہا کہ حکومت اس ملک میں ون پارٹی نافذ کرنا چاہتی ہے،حکومت اپوزیشن کو بھی کچلنا چاہتی ہے اور الیکشن کمیشن کو تباہ کرنا چاہتی ہے ،آج تمام آئینی ادارے بدترین بحران کا شکار ہیں، اس کا سب سے بڑا وار میڈیا پر ہے، یہ ہر ادارے کو کچل کر یہ چاہتے ہیں کہ ملک پر سناٹا چھا جائے،ان کے غلط اور غیر آئینی اقدامات کے متعلق پوچھا نہ جائے، پاکستان نے 35 سال تک ڈکٹیٹر شپ کا سامنا کیا ہے،اس ملک پر 35 سال بدترین آمریت مسلط رہی ہے، پاکستانی عوام نے بتایا ہے کہ اس ملک پر کوئی قذافی اور صدام نہیں بن سکتا ہے،اس ملک پر جو بھی حکمران ڈکٹیٹر آیا ہے اس کو عوام کے سامنے سرنڈر کرنا پڑا، ان کا یہ جو اقدام جارحانہ اقدار ہے نہایت غیر جمہوری اقدام ہے،یہ صدر کا خطاب سننا چاہتے تھے ان کیلئے سب سے بڑا شرم کا مقام یہ ہے کہ ان کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے اور یہ ایسے اقدامات نہ کریں،ہر طرف سناٹا چھا کر یہ صدر کا خطاب سنوانا چاہتے ہیں،ایسا اقدام کیوں کرتے ہیں جس پر انہیں بعد میں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے،ایسے اقدامات کیوں کرتے ہیں جس سے دروازہ بند کرنا پڑے،آپ یہ چاہتے ہیں کہ سنسنان گلیاں ہوں اور مرزا یار اس میں پھرے، ایسا نہیں ہو سکتا۔بعد ازاں پارلیمنٹ ہائوس کے باہر دیئے گئے صحافیوں کے دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن رہنمائوں شہباز شریف ، بلاول بھٹو زرداری ، مولانا فضل الرحمان ، مولانا اسعد محمود ودیگر نے مجوزہ میڈیا ڈیلپمنٹ اتھارٹی کو کالاقانون اور آزادی صحافت پر حملہ قرار دیتے ہوئے اسکی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ حکومت پی ایم ڈی اے کا کالا قانون لانے سے باز رہے ورنہ اس کو خمیازہ بھگتنا پڑے گا، ہم صحافیوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں،یہ کالا قانون ہم پاس نہیں ہونے دیں گے، حکومت نے میڈیا کے خلاف قانون کو زبردستی منظور کیا تو عدالت جائیں گے،خدشہ ہے کہ حکومت پارلیمنٹ کے کسی مشترکہ اجلاس میں میڈیا اتھارٹی بل پاس کرائے گی ، جب تک اس کالے قانون کو دفن نہیں کیاجاتا اس دن تک صحافیوں کے ساتھ کھڑے رہیں گے، میڈیا کی آزادی کے لئے ہم ایک پیج پر ہیں، ہم پارلیمان میں اس اتھارٹی کی بھرپور مخالفت کریں، تین سالہ پارلیمانی دور میں پارلیمان بھی یرغمال ہے ،ادارے بھی یرغمال ہے آپ بھی یرغمال ہیں، اس پارلیمان کے اندر طاقت کے بل بوتے پر قانون سازی ہوتی ہے ، پاکستان کی تاریخ میں اس سے آمرانہ حکومت ہم نے نہیں دیکھی،پاکستان میں آمرانہ ذہنیت سب سے پہلے میڈیاکا گلہ گھونٹتی ہے ، اور بھی بہت سے قانون آرہے ہیں جو آئین سے متصادم ہیں ہم اس حوالے سے بھی خاموش نہیں رہیں گے، ہم ایک ساتھ آگے کی طرف بڑھیں گے، اس وقت بھی ہمارے عزائم میں اسلام آباد کی طرف بھرپور مارچ زیر تجویز ہے ۔ پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے صحافیوں نے مجوزہ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے خلاف دھرنا دیا جو اتوار سے شروع ہوکر پیر کی شام تک جاری رہا۔ دھرنے میں اپوزیشن جماعتوں کے رہنمائوں نے صحافیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے شرکت کی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مجوزہ میڈیا اتھارٹی آزادی صحافت پر حملہ ہے، میڈیا اتھارٹی معاشی ڈاکہ اور معاشی حملہ ہے، حکومت نے میڈیا کے خلاف قانون کو زبردستی منظور کیا تو عدالت جائیں گے،خدشہ ہے کہ حکومت پارلیمنٹ کے کسی مشترکہ اجلاس میں میڈیا اتھارٹی بل پاس کرائے گی۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف سمیت تمام اپوزیشن رہنمائوں سے اچھے تعلقات ہیں، فضل الرحمان کا احترام کرتا ہوں، ان سے کوئی ذاتی اختلاف نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ملک کا میڈیا آزاد ہو، ہر شہری کو بولنے کا حق ہے، ہم اپنی کوشش جاری رکھیں گے، صحافیوں کے ساتھ ہر جگہ احتجاج کرنے کیلئے تیار ہوں، ہم سے پی ایم ڈی اے پر کوئی بات کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی ،انہوں نے کہا کہ یہ کالا قانون ہے، ہم اسے نہیں مانتے۔مسلم لیگ ن کے صدر اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے وفد کے ہمراہ شرکت کی ، وفد میں شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف، مریم اورنگزیب اور دیگر رہنماء شامل تھے ، اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ آج ہم صحافیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیئے حاضر ہوئے ، میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے نام پر کالا قانون لایا جارہا ہے اس کی شدید مذمت کرتے ہیں اور صحافیوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں ، یہ کالا قانون ہم پاس نہیں ہونے دیں گے ، سب اپوزیشن آپ کے ساتھ پوری قوت اور قد کے ساتھ کھڑی ہے ، آپ ہمیں اپنے ساتھ ہر وقت پائیں گے، ابھی تک حکومت مسودہ سامنے نہیں لائی، حکومت کوتنبیہ ہے کہ یہ کالا قانون لانے سے باز رہے ورنہ اس کو خمیازہ بھگتنا پڑے گا ،پی ٹی آئی کے سربراہ جب اپوزیشن میں تھے تو میڈیا کے بارے وہ کیا کہتے تھے ، تین سال میں انہوں نے جو میڈیا کے خلاف کیا میڈیا کے خلاف اس طرح کی چیرہ دستی کا کوئی سیاسی جماعت سوچ بھی نہیں سکتی ، شہباز شریف نے کہا کہ نواز شریف نے حکم دیا کہ آپ کے پاس حاضر ہوں ہم ایوان میں احتجاج کریں گے اور اس کے بعد واک آئوٹ کریں گے۔ دھرنے میں جمعیت علماء اسلام( ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بھی شرکت کی اور خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو پاکستان میڈیا ڈنڈا اتھارٹی کہتاہوں جو میڈیا کا گلہ گھوٹنے کے لیئے ہے،پاکستان میں آمرانہ ذہنیت سب سے پہلے میڈیاکا گلہ گھونٹتی ہے ،ہم آپ کے شانہ بشانہ رہیں گے، اور بھی بہت سے قانون آرہے ہیں جو آئین سے متصادم ہیں ہم اس حوالے سے بھی خاموش نہیں رہیں گے، ہم ایک ساتھ آگے کی طرف بڑھیں گے، مولانا فصل الرحمان نے کہا کہ اس وقت بھی ہمارے عزائم میں اسلام آباد کی طرف بھرپور مارچ زیر تجویز ہے ، پی ڈی ایم اس میں شریک ہو گی، تمام جماعتوں کو دعوت دیں گے، بعد ازاں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے بعد اپوزیشن رہنماء شہباز شریف ، بلاول بھٹو اور مولانا اسعد محمود سمیت دیگر رہنمائوں نے دوبارہ دھرنے میں شرکت کی ، اس ،موقع پر شہباز شریف نے کہا کہ ہم نے پارلیمنٹ میں بھر پور احتجاج کیا ہے ، جب تک اس کالے قانون کو دفن نہیں کیاجاتا اس دن تک آپ کے ساتھ کھڑے رہیں گے ، ہم آپ کے ساتھ ہیں ، بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ میڈیا کی آزادی کے لئے ہم ایک پیج پر ہیں، ہم پارلیمان میں اس اتھارٹی کی بھرپور مخالفت کریں،اگر یہ کالا قانون پاس ہو جاتا ہے تو عدالت سے سڑکوں تک آپ کے شانہ بشانہ کھڑے رہیں گے ۔پاکستان مسلم لیگ( ن) کے صدر اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے حکومت کو تنبیہ کی ہے کہ پی ایم ڈی اے کا کالا قانون لانے سے باز رہے ورنہ اس کو خمیازہ بھگتنا پڑے گا،میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے نام پر کالا قانون لایا جارہا ہے اس کی شدید مذمت کرتے ہیں اور صحافیوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں،یہ کالا قانون ہم پاس نہیں ہونے دیں گے۔ مولانا اسعد محمود نے کہاکہ تین سالہ پارلیمانی دور میں پارلیمان بھی یرغمال ہے ،ادارے بھی یرغمال ہے آپ بھی یرغمال ہیں، اس پارلیمان کے اندر طاقت کے بل بوتے پر قانون سازی ہوتی ہے ، ہم عوام میں جانے کے لیئے تیار ہیں ،سیاسی جماعتیں پارلیمان کے اندر بھی آپ کے ساتھ کھڑی ہوں گی، پاکستان کی تاریخ میں اس سے آمرانہ حکومت ہم نے نہیں دیکھی۔ دھرنے میں اپوزیشن کے رہنمائوں سینیٹر میاں رضا ربانی، شیری رحمان ، احسن اقبال،نفیسہ شاہ ، مصطفی نواز کھوکھر، میاں اسلم سمیت دیگر رہنمائوں نے بھی شرکت کی اور خطاب کیا ۔بعد ازاں پاکستان میڈیاریگولیٹری اتھارٹی بل کیخلاف ملک بھر سے آئے صحافیوں کا پارلیمنٹ ہائوس کے باہر دھرناصدر کے خطاب کے بعد ختم کر دیا گیا جبکہ فیڈرل یونین آف جرنلٹس کی طرف سے بل کیخلاف دھرناجاری رکھنے کا اعلان کیا گیا جس کی آئندہ تاریخ اور جگہ کا تعین لاہور میں ہونے والے اجلاس میں کیا جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker