اسلام آباد، میڈیا پر قدغن اور پاکستان میڈیا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے خلاف ملک بھر کے صحافیوں نے پارلیمنٹ ہائوس کے باہر دھرنا دے دیا، احتجاجی دھرنا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران پیر کو بھی جاری رہے گا،پریس کلب سے راوانہ ہونے والی احتجاجی ریلی میں ن لیگ ،پیپلز پارٹی ،جے یو آئی سمیت اپوزیشن جماعتوں کے وفود، وکلا تنظیموں ، سول سوسائٹی ، معروف اینکرپرسنز سمیت ملک بھر سے آئے ہزاروں صحافیوں نے شرکت کی، پولیس کی رکاوٹیں لگا کر ریلی روکنے کی کوشش ناکام بنا دی گئی ، ریلی پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے پہنچ کر دھرنے میں تبدیل ہو گئی ، جہاں معروف اینکر پرسنز حامد میر، غریدہ فاروقی ، عاصمہ شیرازی ، مطیع اللہ جان ، مظہر عباس سمیت دیگر نے پروگرام کئے ، احتجاجی دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کے قائدین نے پی ایم ڈی اے کو میڈیا کی آواز دبانے کی حکومتی کوشش قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا اور کہا کہ مارشل لا میں بھی صحافت کو دبانے کیلئے ایسے حربے استعمال نہیں کیے گئے ،موجودہ حکومت صحافت کو ختم کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔
تفصیلات کے مطابق اتوار کو ملک بھر سے آنے والی صحافتی تنظیمیں میڈیا پر قدغن اور پاکستان میڈیا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے خلاف نیشنل پریس کلب سے ڈی چوک تک ریلی کی شکل میں پہنچیں۔ریلی میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، مریم اورنگزیب، مولانا حمداللہ اور دیگر سیاسی جماعتوں کے اراکین پارلیمنٹ شریک ہوئے۔ صحافتی تنظیموں کے قائدین نے میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی بل کوصحافیوں کے حقوق اور میڈیا کی آزادی کے خلاف قرار دیتے ہوئے اس قانون کے نفاذ پر ہر سطح پر مزاحمت کرنے اور میڈیا کی آزادی سلب کرنے کی ہر کوشش کو ناکام بنانے کا اعلان کیا ہے۔اس موقع پر سیاسی جماعتوں کے قائدین نے بھی اس قانون کو ذرائع ابلاغ کی آواز کو دبانے کی حکومتی کوشش قرار دے کر اسے مسترد کرتے ہوئے میڈیا تنظیموں کی حمایت کا اعلان کیا۔صحافیوں کے احتجاج اور دھرنے میں اپوزیشن سیاسی جماعتوں کے رہنمائو ں کے علاوہ وکلا، برطرف سرکاری ملازمین، انسانی حقوق کے کارکن اور سول سوسائٹی کے نمائندے بھی شریک ہوئے ۔ دھرنے کے شرکا نے پی ایم ڈی اے بل کو آزادی صحافت کے خلاف قرار دیتے ہوئے اسے فوری واپس لینے کا مطالبہ کیا۔سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن)کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کیا پیمرا کافی نہیں تھا، صحافیوں کو اٹھانا، ٹیلی فون کرنا کافی نہیں تھا کہ آج پی ایم ڈی اے کی ضرورت پڑ گئی کہ ملک میں عوام تک حق سچ کی آواز نہ پہنچنے پائے۔انہوں نے کہا کہ جس ملک میں صحافت آزاد نہیں ہوگی، جو ایک آئینی حق ہے، یہ کوئی آپشن نہیں ہے کہ ہم صحافت کو آزاد کریں یا نہ کریں بلکہ یہ ملک کے عوام کا ایک آئینی حق ہے، کہ وہ اپنی رائے کا اظہار کریں اور ان تک دوسروں کی رائے پہنچے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ وہی لوگ جو یہاں سے چند سو میٹر پر 5 مہینے دھرنا کرتے رہے، اس کی لائیو کوریج ہوتی رہی، پی ٹی وی پر حملے کی بھی لائیو کوریج ہوتی رہی لیکن آج اسی مقام پر سیکڑوں پولیس اہلکار ڈنڈے لے کر کھڑے ہیں کہ صحافی جو احتجاج کر رہے ہیں وہ کیسے روکیں۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ یہ کوئی سیاسی معاملہ نہیں ہے، ہمارا آج یہاں آنے کا مقصد یہ تھا کہ جو احتجاج صحافی کر رہے ہیں ہم اس میں برابر کے شریک ہیں، اس لیے نہیں کہ کوئی سیاسی فائدہ ملے گا بلکہ اس لیے کہ یہ پاکستان کے عوام کا حق ہے جو آج سلب کیا جارہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جس ملک میں اس قسم کے کالے قانون ہوں گے، اس ملک میں کوئی آزادی نہیں رہتی، جب صحافت کی آزادی نہیں رہتی تو پھر عوام اور شہری کی آزادی بھی چلی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے بھی بہت سے آمروں نے ایوب خان سے لے کر پرویز مشرف تک لوگوں نے یہ کوشش کی لیکن یہ پہلی نام نہاد جمہوری حکومت ہے جو آج صحافت کو دبانے کی پوری طرح اور ہر طریقے سے کوشش کر رہی ہے۔سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میں نہیں سمجھتا کہ کسی مارشل لا حکومت نے بھی یہ حربے استعمال کیے ہوں کہ صحافی کی آواز دبے، لوگوں کو دہشت، معاشی حملوں سے ڈرا اور آج ایک قانون بنایا جا رہا ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی کی سینئر رہنما شازیہ مری نے احتجاج دھرنے سے خطاب میں کہا کہ تمام اپوزیشن جماعتیں اس بل کو مسترد کرتی ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ پی ایم ڈی اے کے ذریعے حکومت ایک اندھیرا لانا چاہتی ہے۔مریم اورنگزیب نے اپنے خطاب میں کہا کہ حکومت اس قانون سے صحافت نہیں بلکہ صحافیوں کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ن لیگی ترجمان نے مزید کہا کہ حکومت کا مجوزہ میڈیا اتھارٹی کا قانون، صحافت کو نہیں بلکہ صحافیوں کو ختم کرنے کی کوشش ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ آمرانہ اقدام ہے اور اس کے خلاف ن لیگ صحافیوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ حکومتی قوانین کا مقصد اگلے انتخابات میں دھاندلی کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی بل اور ای ووٹنگ مشین کے قوانین کا مقصد انتخابی دھاندلی ہے۔پی پی رہنما نے مزید کہا کہ ہم صحافیوں کی جدوجہد میں ان کے ساتھ ہیں۔ جماعت اسلامی نے بھی پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی بل کو غیر ضروری قرار دے کر مسترد کردیا۔منصورہ سے جاری بیان میں سیکریٹری اطلاعات جماعت اسلامی پاکستان قیصر شریف نے کہا کہ پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی بل پر سبھی کو تحفظات ہیں، جماعت اسلامی اس غیر ضروری بل کو مسترد کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت وہ کرنا چاہتی ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا، جماعت اسلامی صحافیوں کے احتجاج اور دھرنے کی حمایت کرتی ہے۔ترجمان جماعت اسلامی نے مزید کہا کہ حکومت اپنے چہرے کو صاف کرنے کی بجائے آئینہ توڑنا چاہتی ہے جو کسی صورت بھی درست طرز عمل نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو تنقید برداشت کرتے ہوئے اپنی کارکردگی بہتر کرنی چاہیے، دھرنے پر بیٹھے صحافیوں کی حمایت کرتے ہیں۔دوسری طرف انسانی حقوق کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی)نے پارلیمنٹ ہاوس کے باہر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے دھرنے کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے۔ایچ آر سی پی نے کہا ہے کہ وہ میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ڈریکونیائی قانون کے خلاف پی ایف یو جے کے احتجاج سے یکجہتی کا اظہار کرتی ہے۔انسانی حقوق کمیشن نے کہا ہے کہ مجوزہ بل موجودہ رژیم کے تحت ملک میں اظہارِ رائے کی آزادی کو مزید کم کر دے گا۔