اسلام آباد، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے وفاقی تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان بننے سے لے کر آج تک انجینئرنگ ٹیکنالوجسٹس کیلئے سروس سٹرکچریا انڈکشن پالیسی نہیں بنائی جا سکی ،ایچ ای سی نے نیشنل ٹیکنالوجی کونسل (این ٹی سی)کیلئے جو قانون بنایا تھا اس میں لکھا تھا کہ جو این ٹی سی کاچیئرمین ہو گا وہ ٹیکنالوجسٹس ہو گا لیکن اس سیٹ پر بھی انجینئر بٹھا دیا گیا، یہ ادارے کی نااہلی ہے،دنیا میں تعلیم کے شعبہ میں اتنا ظلم کسی کے ساتھ نہیں ہوا جتنا انجینئرنگ ٹیکنالوجسٹس کے ساتھ ہوا ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے وفاقی تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کا اجلاس چیئرمین سینیٹر عرفان الحق صدیقی کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا۔اجلاس میں انجینئرنگ ٹیکنالوجسٹس کے سروس سٹرکچر اور ان کے ساتھ ہوئی زیادتیوں کے حوالہ سے سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ ریاست والدین کی طرح ہوتی ہے جبکہ ادارے اس کی نمائندگی کرتے ہیں لیکن یہ مسئلہ پاکستان بننے سے لے کر اب تک قائم ہے اور اس میں پاکستان انجینئرنگ کونسل کا منفی کردار ہے جبکہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کنفیوژ دکھائی دیتا ہے۔سینٹر مشتاق احمد خان نے کمیٹی کو بتایا کہ یہ مسئلہ پچھلے 2 سالوں سے سینٹ قائمہ کمیٹی میں چل رہا ہے اور اس کا حل پیش کرنے میں ایچ ای سی ناکام رہا ہے ،پاکستان میں 36 ادارے 200 سے زائد پروگرامز میں یہ ڈگریاں کروا رہے ہیں جس کے باعث انجینئرنگ ٹیکنالوجسٹس کی تعداد ساڑھے تین لاکھ سے زائد ہو چکی ہے اور صورتحال یہ ہے کہ پاکستان بننے سے لے کر آج تک ان کا سروس سٹرکچر یا انڈکشن پالیسی تک نہیں ہے،سابقہ حکومتیں بھی اس مسئلہ کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دے سکیں اور اب صورتحال یہ ہے کہ 1912 میں برطانیہ حکومت کے ہاتھوں قائم کردہ مشہور و معروف ادارہ گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی رسول، منڈی بہائو الدین میں پچھلے سال 1200 مختص سیٹوں کے مقابلہ میں صرف 184 داخلے ہوئے ہیں جو کہ اداروں کی ناہلی اور ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔انہوں نے کہا کہ سینٹ قائمہ کمیٹی کا سابقہ اجلاس مورخہ 3 فروری 2021کو ہوا تھا جس میں کمیٹی نے اداروں کو مسئلے کا حل پیش کرنے کیلئے 90 دن کا وقت دیا تھا لیکن ان اداروں کی نالائقی کہ پہلی میٹنگ ہی 92 دنوں کے بعد بلائی گئی،ایچ ای سی نے جو کمیٹی بنائی اس کے 4 ممبر ہیں اور چاروں انجینئر ہیں ،ان میں ایک بھی ٹیکنالوجسٹس کا نمائندہ نہیں ہے۔انہوں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایچ ای سی نے نیشنل ٹیکنالوجی کونسل (این ٹی سی)کیلئے جو قانون بنایا تھا اس میں لکھا تھا کہ جو این ٹی سی کاچیئرمین ہو گا وہ ٹیکنالوجسٹس ہو گا لیکن اس سیٹ پر بھی انجینئر بٹھا دیا گیا، یہ ادارے کی نااہلی ہے۔سینٹر مشتاق احمد خان نے مزید کہا کہ این ٹی سی ایکٹ 2015 سے پائپ لائن میں ہے اور انجینئرنگ ٹیکنالوجسٹس کو درپیش تمام مسائل کا حل بلاواسطہ اس ایکٹ کے پاس ہونے سے مشروط ہے۔سینیٹر انجینئر رخسانہ زبیری نے کہا کہ پاکستان انجینئرنگ کونسل کے ایکٹ میں ترمیم کر کے ٹیکنالوجی سٹریم کو بھی شامل کیا جانا چاہیے کیونکہ پی ای سی واشنگٹن اکارڈ کے ساتھ کام کر رہا ہے جس میں ٹیکنالوجی سٹریم بھی موجود ہے۔سینیٹر پروفیسر مہر تاج روغانی نے اس ضمن میں کہا کہ ظلم کی ایک انتہا ہوتی ہے، دنیا میں تعلیم کے شعبہ میں اتنا ظلم کسی کے ساتھ نہیں ہوا جتنا انجینئرنگ ٹیکنالوجسٹس کے ساتھ ہوا ہے ،ان کا مزید کہنا تھا کہ ظالموں سمجھ جا ورنہ ان کی بددعا لگے گی۔سید علی حسن شاہ نے بطور صدر ینگ انجنیئرنگ ٹیکنالوجسٹس ایسوسی ایشن کے اجلاس میں شرکت کی اور ساڑھے تین لاکھ انجینئرنگ ٹیکنالوجسٹس کی نمائندگی کرتے ہوئے ہائوس کو بتایا کہ 1974 سے لے کر اب تک منسٹری آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی طرف سے 4 کمیٹیاں بن چکی ہیں، اس کے علاوہ 3 پرائم منسٹر ٹاسک فورس بن چکی ہیں اور سینٹ سٹینڈنگ کمیٹی 3 دفعہ اپنی سفارشات دے چکی ہے اس کے باوجود آج بھی ہم 1974 والے مقام پر کھڑے ہیں۔انجنیئرنگ ٹیکنالوجسٹس کیلئے پاکستان انجینئرنگ کونسل ہمیشہ سے اپنا موقف تبدیل کرتی آئی ہے اور ہائر ایجوکیشن کمیشن آج بھی کنفیوژ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب تک کوئی فیصلہ نہیں ہوتا تب تک عبوری ریلیف دیا جائے تاکہ نئے گریجویٹس کا مستقبل تباہ ہونے سے بچ جائے،یہاں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ چئیرمین نیشنل ٹیکنالوجی کونسل ،انجینیرنگ ٹیکنالوجسٹس کی حقیقی نمائندگی کرنے میں ناکام رہے اور ہائوس کو کوئی مثبت حل یا لائحہ عمل واضح نہ کرسکے۔اجلاس کے آخر میں چیئر میں عرفان الحق صدیقی نے انجینئرنگ ٹیکنالوجسٹس کو جلد انصاف کی یقین دہانی کروائی۔