سید عمیر شیرازی
@SyedUmair95
عربوں کے معاش کا دارومدار تجارت اور زراعت پر مخصر تھا عرب کا بڑا حصہ بنجر اور صحراؤں پر مشتمل تھا اور غیر زرخیز علاقے کے باشندوں کا واحد ذریعہ معاش تجارت تھا مکہ کا علاقہ غیر زرخیز اور بنجر تھا اس مناسبت سے مکہ کو بن کھیتی کی وادی کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے قریش مکہ نے تجارت کی غرض سے دور دراز ممالک کے سفر کیے قریش مکہ میں ہاشم پہلے شخص تھے جنہوں نے سردیوں اور گرمیوں میں تجارت کی غرض سے دو سال میں دو مرتبہ سفرکے طریقے ایجاد کئے قریش کے ان تجارتی سفر کا تذکرہ قرآن پاک میں موجود ہے اس زمانے میں عرب میں بدامنی اور لوٹ مار عام تھی اس کے باوجود قریش کے تجارتی کاروان بےخوف و خطر سفر کرتے تھے کیوںکہ قریش مکہ میں کعبہ کے متولی ہونے کی وجہ سے قدر نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔
قریش کی تجارتی ترقی کا اندازہ اس امر سے بخوبی کیا جاسکتا ہے کہ نہ صرف مرد بلکہ خواتین بھی تجارت میں سرمایہ لگایا کرتی تھیں اور نفع میں شریک ہوتیں مثلا حضرت خدیجہؓ اور ابو جہل کی ماں اسماء بنت مخیرہ تجارت کیا کرتیں تھیں اسلام سے پہلے عربوں کے تجارتی روابط ہندوستان،حبش،ایران،بابل(عراق)،شام،مصر اور یونان سے قائم تھے۔
عربوں کی سیاسی حالت
اسلام سے پہلے عرب کے کئی خطوں میں مختلف ریاستیں قائم ہوئی،شمالی جانب شام کے حواشی پر چار عرب ریاستیں معرض وجود میں آئیں،جنوب میں تبطی ریاست،شمال میں تدمیر،بازنطینی سرحد کے قریب بنو غسان اور سلطنت ایران کی سرحد پر آل حیرہ (بنولخم) کی ریاستیں قائم تھیں،
نبطی پہلے پہل بدوی قبیلے کی حیثیت سے چھٹی صدی ق م میں نمودار ہوئے وہ شرق اردن کے مشرق میں واقع صحرائی علاقے کے رہنے والے تھے 169 قبل مسیح میں شام کے جنوبی حصے پر نبطی ریاست قائم ہوئی انکا پہلا بادشاہ حارثہ تھا یہ شامی ریاست 106 قبل مسیح تک قائم رہنے کے بعد ختم ہوگئی۔
تدمیر:
ترمیر کی ریاست شام کے شمالی حصے پر قائم تھی دوسری صدی ق م میں پارتھی سلطنت اور رومی سلطنت کے درمیان ترمیر کی ریاست حائل تھی دو بڑی سلطنتوں کی درمیانی صورتحال میں ترمیر کے حکمرانوں نے حکمت عملی سے ریاست کی آزادی کو برقرار رکھا ترمیر کے حاکم اذنیہ نے سلطنت روم سے وفاداری نبھائی جس کے صلے میں اسے قائد مشرق کے خطاب سے نوازا اذنیہ کے بعد اسکی بیوہ ملکہ زنوبیا اس کی جانشین ہوئی جسے بڑی شہرت ملی اس” بت زاہاائی” اور عربوں کی نیم افسانوی حکاتیوں میں "الزباء” کے نام سے موسوم کیا گیا اس عہد میں ترمیر کی ریاست نے بڑی ترقی کی۔
مکہ کی شہری ریاست
مکہ کی شہری ریاست کی بنیاد قصی بن کلاب نے رکھی قصی پہلے شخص تھے جنہوں نے قریش کے منتشر قبائل کو مکہ میں لاکر آباد کیا اس زمانے میں مکہ بنی خزاعہ کے قبیلے میں تھا قصی نے یہاں قریش کا اقتدار قائم کیا اور نظم و نسق کی غرض سے متعدد محکمے بنائے اس میں تولیت کعبہ قابل ذکر ہے جس سے قصی کی دینی سیادت تمام عرب پر قائم ہوئی اسی بناء پر قریش کو عرب قبائل میں ممتاز حیثیت حاصل تھی۔
قریش حجاز کا مشہور و معروف قبیلہ جو مکہ میں آباد تھا جس میں کئی خاندان بنو ہاشم،بنو امیہ،بنو نوفل،بنو عبدالدار،بنو اسد،بنو تیم،بنو مخزوم، بنو عدی، بنو جمح اور بنو سہم شامل تھے قریش کے جد اعلی فہربن مالک کا لقب قریش تھا ان مناسبت سے وہ قریش کہلائے۔
قریش کا لفظ تقرش سے نکلا ہے جس کے معنی تجارت کرنا،کمانا کاروبار کرنا مراد لئے جاتے ہیں قریش کا پیشہ تجارت تھا اس مناسبت سے قریش کہا گیا
اسلام سے پہلے عرب کا جنوبی حصہ یعنی یمن تہذیب و تمدن کا گہوارہ رہا یونانی سیاح ہیروڈوٹس لکھتا ہے کہ یہ خطہ اس زمانے میں سب سے زیادہ خوشحال اور آسودہ حال تھا جزیرہ عرب میں کبھی بھی مرکزی حکومت قائم نہ ہوئی وسطی عرب میں مکہ ، یثرب اور طائف کی سیاسی صورتحال دیگر حصوں سے مختلف تھی ان شہروں کی حیثیت شہری ریاست کی سی تھی اور قبائلی طرز کا نظام رائج تھا مکہ کا اقتدار قبیلہ قریش کے ہاتھوں میں تھا۔