کراچی،منفرد آواز کے مالک اور متعدد لافانی نغموں کے خالق گلوکار حبیب ولی محمد کو مداحوں سے بچھڑے سات برس بیت گئے، دھیمے سروں کے ساتھ ان کی مدھر آواز آج بھی گنگناتی محسوس ہوتی ہے۔حبیب ولی محمد 16 جنوری 1921 کو رنگون میں پیدا ہوئے پھر ان کا خاندان ممبئی منتقل ہوگیا۔ اس گھرانے نے کاروباری دنیا میں نام کمایا۔ حبیب ولی محمد نے کالج سے ہی گلوکاری کی ابتدا کردی تھی، پاکستان بننے کے بعد حبیب ولی محمد نے اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی میں سکونت اختیار کی۔انہوں نے امریکا سے اعلی تعلیم حاصل کی، حبیب ولی محمد نے کئی ملی نغمے گائے جبکہ ٹیلی وژن اور فلم کے لیے گائے گیتوں کو بھی بے پناہ شہرت ملی، ان کی آواز میں گائی ہوئی غزلوں نے کئی پاکستانی فلموں کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔حبیب ولی محمد کو مشہور غزل لگتا نہیں ہے جی مرا اجڑے دیار میں پر بیحد شہرت ملی۔ انھوں نے اپنے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ انھیں ممبئی میں ہونے والے ایک مقابلے میں یہ غزل گانے پر اول انعام ملا تھا۔ اس مقابلے میں 1200 گلوکاروں نے حصہ لیا تھا اور ان میں مشہور فلمی گائیک مکیش بھی شامل تھے۔اس کے بعد انھوں متعدد نغمے اور غزلیں گائیں جو عوام و خواص میں یکساں مقبول ہوئیں۔ ان کی مشہور غزلوں میں یہ نہ تھی ہماری قسمت، کب میرا نشیمن اہلِ چمن، اور آج جانے کی ضد نہ کرو، وغیرہ شامل ہیں۔حبیب ولی محمد کاروباری خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور لیے وہ کمرشل گلوکار نہیں تھے بلکہ اپنی پسند اور شوق سے گانا سیکھا اور گایا۔ ان کی آواز کے ایک مخصوص رینج تھی لیکن اسی رینج میں رہتے ہوئے جو نغمے گائے وہ بیحد مقبول ہوئے۔حبیب ولی محمد نے فلمی گیت بھی گائے، تاہم ان کی آواز غزل کے زیادہ موزوں تھی، اور یہی ان کی اصل وجہِ شہرت بنی۔شہرہ آفاق گلوکارحبیب ولی محمد 3 ستمبر 2014 کو امریکا کے اسپتال میں خالق حقیقی سے جاملے۔